Maktaba Wahhabi

475 - 647
اہلِ تشیع کے ذبیحے کا حکم: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ اگر کوئی اہلِ تشیع گو سفند ذبح کرے تو اہلِ تسنن کو اس کا گوشت کھانا درست ہے یا نہیں ؟ جواب:واضح ہو کہ ذبیحہ اہلِ تشیع کا کھانا حلال ہے،کیونکہ وہ اہلِ اسلام سے ہیں،اس دلیل سے کہ اہلِ سنت کے نزدیک ان کی شہادت مقبول ہے۔اگر اہلِ تشیع کافر ہوتے تو شہادت ان کی مقبول و جائز نہ ہوتی،حالانکہ وہ مقبول و جائز ہے اور شہادت کافر کی مسلمان پر بالاتفاق روا نہیں ہے،چنانچہ ہدایہ و کفایہ و شرح وقایہ و کنز الدقائق و در مختار وغیرہ کتبِ معتبرہ میں مذکور ہے: ’’تقبل شھادۃ أھل الأھواء إلا الخطابیۃ‘‘[1] انتھیٰ ما في الھدایۃ مختصرا،وفي الذخیرۃ:’’شھادۃ أھل الأھواء مقبولۃ عندنا‘‘[2] انتھیٰ ما في الکفایۃ۔ [بدعتی لوگوں کی شہادت قبول ہے،سوائے خطابیہ کے۔ہدایہ اور ذخیرہ میں اسی طرح ہے] مراد اہلِ اہوا سے رافضی و خارجی و معتزلہ وغیرہ ہیں،پس اہلِ تشیع جب نزدیک اہلِ سنت کے اہلِ اسلام ٹھہرے تو ذبیحہ ان کا بے شک حلال ہوگا۔واللّٰه أعلم بالصواب،فاعتبروا یا أولي الأبصار۔ فقط حررہ:عبد الحق۔ سید محمد نذیر حسین هو الموافق اہلِ تشیع میں بعض فرقے ایسے بھی ہیں جو حضرت علی کو خدا کہتے ہیں،جیسے فرقہ خطابیہ،اس فرقہ خطابیہ کا یہ عقیدہ ہے کہ حضرت علی بڑے خدا ہیں اور امام جعفر چھوٹے خدا ہیں،سو اہلِ تشیع و دیگر اہلِ اہوا کے اس قسم کے مشرک و کافر فرقوں کا ذبیحہ ہرگز حلال نہیں ہے،اس قسم کے فرقوں کی شہادت بھی قبول نہیں ہے اور اس قسم کے فرقوں کی روایتِ حدیث بھی مقبول نہیں ہے،حاشیہ ہدایہ میں ہے: ’’قولہ:إلا الخطابیۃ ھم قوم ینسبون إلیٰ ابن الخطاب،رجل کان بالکوفۃ یزعم أن علیا الإلہ الأکبر وجعفر الصادق الإلہ الأصغر‘‘[3] الخ [مگر خطابیہ فرقہ جو کوفہ کے ایک آدمی ابن خطاب کی طرف منسوب ہے،ان کا عقیدہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ بڑے خدا ہیں اور جعفر صادق چھوٹے خدا ہیں ] اسی طرح شرح نخبہ کے حاشیے اور دیگر کتابوں میں بھی لکھا ہے۔عبارتِ ہدایہ ’’وتقبل شھادۃ أھل الأھواء‘‘ کے تحت میں صاحبِ کفایہ لکھتے ہیں:
Flag Counter