Maktaba Wahhabi

665 - 647
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فیصلہ کیا ہے،بیٹی کو نصف اور یتیم پوتی کو سدس اور باقی بہن کو۔الحاصل قاعدہ الاقرب فالاقرب میں اقرب کا وہ جدید معنی مراد لینا،جس کو فاضل جیراجپوری نے بیان کیا ہے،کسی طرح جائز نہیں ہے۔ ناظرین! ہمارے ان بیانات سے آپ بہ خوبی فیصلہ کر سکتے ہیں کہ قاعدہ الاقرب فالاقرب میں اقرب کے معنی سمجھنے میں فقہاے کرام سے غلط فہمی ہوئی ہے،جس کی وجہ سے ان حضرات نے یتیم پوتے کو محجوب ٹھہرایا ہے یا فاضل جیراجپوری سے غلطی واقع ہوئی ہے،جس کی بنا پر انھوں نے یتیم پوتے کو وارث بنایا ہے۔ھذا ما عندي واﷲ تعالیٰ أعلم بالصواب۔ نمبر 3 فرائضِ اہلِ سنت والجماعت کا ایک مسلّمہ مسئلہ یہ ہے کہ اخیافی بھائی ذوی الفروض سے ہیں،ایک ہو تو چھٹا حصہ اور ایک سے زیادہ ہوں تو ایک تہائی پائیں گے اور سب برابر کے شریک ہوں گے۔فاضل جیراجپوری نے اس مسئلے کی بھی مخالفت کی ہے،چناں چہ آپ یہ صورت: زینب مـــــــیـت مسئلہ ۶ شوہر ماں ۲ اخیافی بھائی ۲ حقیقی بھائی ۲ علاتی بھائی  ۳ ۱ ۲ م م  پیش کر کے لکھتے ہیں کہ دنیا میں کون وہ شخص ہے،جو کہہ سکتا ہے کہ حقیقی بھائیوں کو محروم کر کے اخیافی بھائیوں کو حصہ دے دینا کسی معقول قانونِ وراثت پر مبنی ہے؟ جس رشتے سے اخیافی وارث بنائے گئے ہیں،حقیقیوں میں اگر باپ کے رشتے کا نہ بھی خیال کیا جائے تو کم سے کم وہ رشتہ تو ضرور موجود ہے،پھر ان کو محروم کرنے کے کیا معنی؟ امام مزنی کی کتاب ’’المختصر‘‘ میں ہے کہ اس صورت میں حضرت عمر حقیقیوں کو محروم نہیں کرتے تھے۔ تنقید: بے شک بہ ظاہر مقتضاے قیاس تو یہی ہے کہ اس مسئلے میں حقیقیوں کو محروم نہیں کرنا چاہیے،چناں چہ حضرت عمر،حضرت عثمان،ابن عباس رضی اللہ عنہم وغیرہم اور امام مالک اور امام شافعی رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔اس خاص مسئلے میں جس کا نام مشرّکہ ہے۔[1] یہ حضرات حقیقیوں کو محروم نہیں کرتے،بلکہ ثلث میں اخیافیوں کے ساتھ حقیقیوں کو بھی شریک
Flag Counter