Maktaba Wahhabi

350 - 647
علامہ شوکانی لکھتے ہیں: ’’وقد استدل بحدیث ابن عباس من قال أنہ یجوز الامتناع من تسلیم المرأۃ حتی یسلم الزوج مھرھا‘‘[1] الخ [جس نے یہ کہا کہ عورت کے لیے،جب تک اس کا شوہر اس کو حق مہر نہ دے دے،اپنے آپ کو سونپنے سے روکنا جائز ہے،اس نے عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث سے استدلال کیا ہے] ہاں یہ بھی واضح ہو کہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہما سے صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے زرہ حضرت فاطمہ کو دے دی،رہی یہ بات کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے زرہ کو بیچ کر کچھ کپڑے اور خوشبو خریدی اور حضرت فاطمہ کے جہیز میں دی،جیسا کہ سائل نے لکھا ہے،سو یہ بات کسی صحیح حدیث میں دیکھنے میں نہیں آئی۔واللّٰه أعلم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[2] سید محمد نذیر حسین سوتیلی بھانجی سے نکاح: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید کی ایک عورت سے دختر پیدا ہوئی،جس کا نام ہندہ ہے۔اب عورت زید کی مر گئی،جس کے شکم سے وہ دختر ہندہ موجود ہے،پس زید نے اپنی دختر ہندہ کے بدلے میں دوسرے شخص بکر کی ہمشیرہ سے نکاح اپنا کر لیا اور اپنی دختر ہندہ کا نکاح ہمراہ بکر کے کر دیا۔زید کا وہ بکر سالہ لگا اور زید کی دختر ہندہ بکر کی سوتیلی بھانجی لگی،اب مسئلہ دریافت طلب یہ ہے کہ بکر کا نکاح ہمراہ مسماۃ ہندہ کے،جو اس کی سوتیلی بھانجی لگی،شرع میں درست ہے یا نہیں ؟ جواب:واضح ہو کہ نکاح زید کا ہمشیرہ بکر سے اور نکاح بکر کا دختر زید سے اگر بعوض دین مہر ہوا ہے تو شرعاً جائز ہے اور اگر بغیر دین مہر ہوا ہے تو جائز نہیں ہے إلا عند أبي حنیفۃ رحمة الله عليه۔’’البتہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک جائز ہے۔‘‘ واللّٰه أعلم بالصواب،وإلیہ المرجع والمآب۔العبد:عبد الرحیم عفي عنہ۔سید محمد نذیر حسین هو الموافق جواب صحیح ہے اور صورتِ مسئولہ میں زید کی دختر ہندہ جو بکر کی سوتیلی بھانجی لگی،یعنی چونکہ زید کی زوجہ ثانیہ بکر کی ہمشیرہ ہے اور زید کی زوجہ اولیٰ کی دختر ہندہ ہے تو اس معنی میں ہندہ بکر کی بھانجی لگی،سو اس کا کچھ مضائقہ نہیں،کیونکہ وہ در حقیقت بکر کی بھانجی نہیں ہے۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[3]
Flag Counter