Maktaba Wahhabi

274 - 647
ہے اور عباداتِ بدنیہ کے ثواب پہنچنے میں اختلاف ہے۔بعض علما کے نزدیک پہنچتا ہے اور بعض کے نزدیک نہیں پہنچتا۔واﷲ تعالیٰ أعلم بالصواب۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفااللّٰه عنہ۔[1] سید محمد نذیر حسین کیا مردے کے لیے قرآن پڑھ کر بخشنا جائز ہے؟ سوال:مردے کے واسطے ختمِ قرآن پڑھ کر بخشنا جائز ہے یا نہیں ؟ جواب:اس بارے میں علما کا اختلاف ہے کہ قراء تِ قرآن کا ثواب مردے کو پہنچتا ہے یا نہیں ؟ علماے حنفیہ کے نزدیک اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے نزدیک اور بعض اصحابِ شافعی کے نزدیک پہنچتا ہے اور اکثر علماے شافعیہ کے نزدیک نہیں پہنچتا ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ کا مشہور مذہب یہی ہے کہ نہیں پہنچتا ہے۔پس جن لوگوں کے نزدیک پہنچتا ہے،ان کے نزدیک مردے کے واسطے ختمِ قرآن پڑھ کر بخشنا جائز ہے اور جن کے نزدیک نہیں پہنچتا،ان کے نزدیک نہیں جائز ہے۔شرح کنز میں ہے: ’’إن للإنسان لہ أن یجعل ثواب عملہ لغیرہ صلاۃ کان أو صوما أو حجا أو صدقۃ أو قراء۔ۃ قرآن أو غیر ذلک من جمیع أنواع البر،ویصل ذلک إلی المیت،وینفعہ عند أھل السنۃ‘‘[2] [بلاشبہہ انسان کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے عمل کا ثواب دوسرے کو بخش دے،خواہ وہ عمل نماز ہو یا روزہ، حج ہو یا صدقہ،قراء تِ قرآن ہو یا اس کے علاوہ تمام قسم کی نیکیاں۔بہر حال اہلِ سنت کے نزدیک اس کا ثواب میت کو پہنچتا ہے اور اسے اس کا فائدہ ہوتا ہے] امام نووی شرح مقدمہ میں لکھتے ہیں: ’’وأما قراء۔ۃ القرآن فالمشھور من مذھب الشافعي أنہ لا یصل ثوابھا إلی المیت،وقال بعض أصحابہ:یصل إلی المیت ثواب جمیع العبادات من الصلاۃ والصوم والقراء ۃ وغیر ذلک‘‘[3] [جہاں تک قراء ت کا تعلق ہے تو امام شافعی رحمہ اللہ کا مشہور مذہب یہ ہے کہ میت کو اس کا ثواب نہیں پہنچتا،البتہ ان کے بعض اصحاب کا کہنا ہے کہ نماز،روزے،قراء تِ قرآن وغیرہ تمام عبادات کا ثواب میت کو پہنچتا ہے] نیز اذکار میں لکھتے ہیں:
Flag Counter