Maktaba Wahhabi

659 - 647
ہو کہ مغایرت کا قرینہ موجود ہے،کیوں کہ اس قول سے پہلے ان کا یہ قول موجود ہے: ’’ولد الأبناء بمنزلۃ الآباء إذا لم یکن دونھم ولد ذکر‘‘ زید بن ثابت کے اس قول کی موجودگی میں ان کے قول:’’ولا یرث ولد الابن مع الابن‘‘ کے معنی یہ ہوئے کہ بیٹے کی موجودگی میں پوتا میراث نہیں پائے گا۔اس کے سوا کوئی اور معنی ہو ہی نہیں سکتے۔ہم یہاں زید بن ثابت کے فتوے کے پورے الفاظ نقل کر دیتے ہیں۔صحیح بخاری میں ہے: ’’قال زید:ولد الأبناء بمنزلۃ الآباء إذا لم یکن دونھم ولد،ذکرھم وأنثاھم،کأنثاھم ویرثون کما یرثون،ویحجبون کما یحجبون،ولا یرث ولد الابن مع الابن‘‘ دوسرا اعتراض: یہ حدیث نبوی نہیں ہے،صرف زید بن ثابت کا قول ہے۔صحابی وراثت کے مسئلے میں اکثر رائے رکھتے تھے،ان میں باہم ایک دوسرے سے اختلاف ہو جاتا تھا اور ایک دوسرے کی رائے کو تسلیم نہیں کرتے تھے۔ جواب: بے شک یہ حدیث نبوی نہیں ہے،مگر حدیثِ نبوی کے موافق ہے،اور بے شک وراثت کے بعض بعض مسائل میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے اندر اختلاف تھا،لیکن اس مسئلے میں،جس میں ہماری آپ کی بحث ہے،صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان اختلاف نہیں تھا۔کسی صحابی سے اس مسئلے میں زید بن ثابت کی مخالفت ثابت نہیں۔ہاں فرائض میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا جو پایہ ہے،وہ پہلے معلوم ہوچکا ہے۔ نمبر 2 فقہا نے حجبِ حرمان کو دو قاعدوں پر مبنی کیا ہے: ۱۔ واسطے کی موجودگی میں ذی واسطہ وارث نہیں ہوتا۔ ۲۔ الاقرب فالاقرب،یعنی قریب کا رشتے دار دور کے رشتے دار کو محروم کر دیتا ہے۔بیٹے کی موجودگی میں یتیم پوتوں کا محجوب ہونا۔ فقہا اسی دوسرے قاعدے سے ثابت کرتے ہیں۔ ایک اشکال: فاضل جیراجپوری نے اس دوسرے قاعدے پر یہ بحث کی ہے کہ اس قاعدے اقرب فالاقرب میں اقرب کا ظاہری معنی،یعنی یہ کہ مطلقاً درجے کے لحاظ سے جو قریب ہو،وہ بعید کو محروم کر دیتا ہے،مراد نہیں ہے،فقہا سے غلط فہمی واقع ہوئی ہے،ان لوگوں نے اس قاعدے میں اقرب کا ظاہری معنی خیال کر کے یہ سمجھا کہ بیٹا جو قریبی رشتے دار
Flag Counter