Maktaba Wahhabi

90 - 647
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بازارِ عکاظ میں جانے سے میلوں اور عرسوں میں برائے تجارت جانے کو جائز بتاتے ہیں،وہ میرے نزدیک غلطی پر ہیں۔ہاں ہدایت و تبلیغِ اسلام کی غرض سے میلوں اور عرسوں میں جا کر تبلیغ کرنا اور شرک و بدعات اور امورِ منکرات سے منع کرنا اور وعظ و نصیحت کرنا جائز ہے،بشرطیکہ مبلغین و واعظین میلوں اور عرسوں میں اپنے ڈیرے خیمے نہ لگائیں اور نہ وہاں قیام کریں،بلکہ میلوں اور عرسوں سے الگ کسی دوسری جگہ ٹھہریں اور جتنی دیر تک ان کو تبلیغ کا کام کرنا ہے،فقط اتنی دیر تک وہاں ٹھہریں،پھر اپنا کام کر کے وہاں سے الگ ہو جائیں۔ھذا ما عندي واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن،عفا اللّٰه عنہ۔۱۵ ذي الحجۃ ۴۳ھ دسویں محرم کو اہل و عیال پر وسعت کرنے کی شرعی حیثیت: سوال:ماہِ محرم کی دسویں تاریخ کو کھانے میں اہل و عیال پر وسعت کرے۔آیا اس کا ثبوت کوئی شرعی ہے یا نہیں ؟ جواب:محرم کی دسویں تاریخ کو کھانے میں وسعت کرنے کا ثبوت اس حدیث سے ہوتا ہے: ’’عن ابن مسعود قال قال رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم:(( مَنْ وَسَّعَ عَلیٰ عِیَالِہِ فِيْ النَّفَقَۃِ یَوْمَ عَاشُوْرَائَ،وَسَّعَ اللّٰه عَلَیْہِ سَائِرَ سَنَۃٍ )) قال سفیان:إنا قد جربناہ فوجدناہ کذلک۔رواہ رزین،وروی البیھقي في شعب الإیمان عنہ،وعن أبي ھریرۃ وأبي سعید و جابر و ضعفہ‘‘[1] (مشکاۃ،باب فضل الصدقۃ) یعنی ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جو شخص عاشورا کے روز اپنے عیال پر نفقہ میں وسعت کرے،اﷲ تعالیٰ ایسے شخص کے رزق میں اس سال کے باقی تمام دنوں میں وسعت کرے گا۔سفیان نے کہا کہ ہم نے اس کا تجربہ کیا ہے،پس ایسا ہی پایا ہے۔روایت کیا اس حدیث کو رزین نے اور روایت کیا اس کو بیہقی نے ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور ابوہریرہ اور ابو سعید اور جابر رضی اللہ عنہ سے اور ضعیف کہا اس حدیث کو۔ اس حدیث کو اگرچہ بعض محدثین نے ضعیف اور ناقابلِ احتجاج اور بعض نے موضوع بتایا ہے،مگر حق بات یہ ہے کہ یہ حدیث موضوع نہیں ہے اور کثرتِ طرق کی وجہ سے حسن و قابلِ احتجاج ہے۔حافظ سیوطی ’’تعقبات علی ابن الجوزی‘‘ (ص:۴۹) میں لکھتے ہیں: ’’قلت:أخرجہ البیھقي في الشعب من حدیث أبي سعید الخدري وأبي ھریرۃ وجابر،وقال:أسانیدہ کلھا ضعیفۃ،ولکن إذا ضم بعضھا إلی بعض أفاد قوۃ،[2] وقال الحافظ
Flag Counter