Maktaba Wahhabi

502 - 647
مختص نہیں۔عدمِ اختصاص پر حضرت علی اور حضرت حسن رضی اللہ عنہما کی وہ دونوں حدیثیں،جو اوپر مذکور ہوئیں،واضح دلیل ہیں۔صاحبِ سبل السلام حدیثِ جابر رضی اللہ عنہ کے تحت میں لکھتے ہیں: ’’دل الحدیث علی جواز الاشتراک في البدنۃ والبقرۃ،وأنھما یجزیان عن سبعۃ،وھذا في الھدي،ویقاس علیہ الأضحیۃ،بل قد ورد فیھا نص فأخرج الترمذي والنسائي من حدیث ابن عباس قال:کنا مع رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم في سفر فحضر الأضحیٰ فاشترکنا في البقرۃ سبعۃ،وفي البعیرۃ عشرۃ‘‘[1] [یہ حدیث اونٹ اور گائے (کی قربانی) میں شرکت کے جواز پر دلالت کرتی ہے۔بلاشبہہ وہ دونوں سات افراد کی طرف سے کفایت کرتے ہیں،یہ ہدی کے بارے میں حکم ہے اور اضحیہ کو بھی اسی پر قیاس کیا جائے گا،بلکہ اس پر نص وارد ہوئی ہے۔ترمذی و نسائی میں عبداﷲ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے،انھوں نے کہا کہ ہم رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں تھے،عید الاضحی کا وقت آ گیا تو ہم نے گائے کی قربانی میں سات اور اونٹ میں دس افراد نے شرکت کی] ھذا ما عندي،واللّٰه تعالیٰ أعلم۔ أملاہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ ہرن اور بکری سے پیدا ہونے والے بچے کو عقیقہ یا قربانی میں ذبح کرنا: سوال:ہرن اور بکری سے جو بچہ پیدا ہوا اور برس روز کا یا زیادہ کا ہوگیا تو قربانی و عقیقہ اس بچے کا درست ہے یا نہیں ؟ جواب:ہرن اور بکری سے جو بچہ پیدا ہوا،اگر وہ مشابہ ہرن کے ہے تو اس کی قربانی و عقیقہ ناجائز ہے اور اگر وہ مشابہ ہرن کے نہ ہو تو اس کی قربانی و عقیقہ جائز ہے،لیکن دو برس سے کم کا نہیں ہونا چاہیے: ’’ولا یجزیٔ دون الثني من المعز،وھو ما استکمل سنتین،وطعن في الثالثۃ‘‘[2] ھکذا في الروضۃ الندیۃ‘‘ [بکری کا بچہ ثنی ہی جائز ہے،اس سے کم عمر کا جائز نہیں،اور ثنی وہ ہے،جس کے دو سال پورے ہوچکے ہوں اور تیسرا سال شروع ہو جیسا کہ روضہ ندیہ میں ہے] واللّٰه أعلم حررہ:السید عبد الحفیظ،عفي عنہ سید محمد نذیر حسین هو الموافق واضح ہو کہ ہرن اور بکری سے جو بچہ پیدا ہو،وہ اگر بکری ہے تو قربانی درست ہے اور اگر بکری نہیں ہے تو
Flag Counter