وکالت کی شرعی حیثیت:
سوال:وکالت و بیرسٹری،جو محکمہ جات عدالت و فوجداری میں مروج ہے،کیا گورنمنٹ انگریزی کیا ریاست حیدر آباد
وغیرہ جائز ہے یا نہیں ؟
جواب:وکالت کی تین صورتیں ہیں:
1۔وکالت امور معلوم الجواز والحقیۃ میں،یعنی ایسے امور میں جن کو وکیل جانتا ہو کہ یہ امور شرعاً جائز و حق ہیں۔
2۔وکالت امور معلوم عدم الجواز والبطلان میں،یعنی ایسے امور میں جن کو وکیل جانتا ہو کہ یہ امور شرعاً باطل و ناجائز ہیں۔
3۔وکالت امور غیر معلوم الجواز والبطلان میں،یعنی ایسے امور میں جن کو وکیل نہیں جانتا کہ یہ امور شرعاً جائز و حق ہیں یا ناجائز و ناحق۔
اول صورت جائز ہے اور دوسری و تیسری صورت ناجائز۔پہلی صورت کے جواز کی دلیل ہے:{تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی} (سورۃ مائدۃ،رکوع:۱) [اور نیکی اور تقویٰ پر ایک دوسرے کی مدد کرو] وقولہ تعالیٰ:{مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْھَا} (سورۂ نساء،رکوع:۱۱) [جو کوئی سفارش کرے گا،اچھی سفارش،اس کے لیے اس میں سے ایک حصہ ہو گا]
وما رواہ أحمد و أبو داود عن عبداللّٰه بن عمر رضی اللّٰه عنہما مرفوعاً:(( من خاصم في باطل،وھو یعلمہ،لم یزل في سخط اللّٰه تعالیٰ حتی ینزع )) [1]
[نیز جو امام احمد اور ابو داود رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے کہ عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً مروی ہے:جس نے جانتے بوجھتے ہوئے باطل (کی حمایت) میں جھگڑا کیا تو وہ اﷲ کی ناراضی میں رہے گا،حتی کہ اس سے باز آجائے]
وما رواہ أبو داود عن واثلۃ بن الأسقع رضی اللّٰه عنہ قال:قلت:یا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم ! ما العصبیۃ؟ قال:(( أن تعین قومک علی الظلم )) [2]
[نیز جو امام ابو داود رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔واثلہ بن اسقع رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عرض کی:اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! عصبیت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ کہ تو اپنی قوم کے لوگوں کی مدد کرے،حالانکہ وہ ظلم پر ہوں ]
وعن سراقۃ بن مالک بن جعشم رضی اللّٰه عنہ قال:خطبنا رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم فقال:(( خیرکم
|