Maktaba Wahhabi

421 - 647
اور اس کی دعوت قبول کرنی اور اس کی دعوت کرنی جائز ہے،ورنہ اہلِ تقویٰ کو چاہیے کہ اس سے پرہیز کریں،تاکہ وہ اس فعل سے باز آئے۔واللّٰه أعلم۔ کتبہ:عبد الرحمن گورکھپوری،عفي عنہ۔ سید محمد نذیر حسین هو الموافق صورتِ مسئولہ میں اگر اس عورت نے اپنا نکاح خود بلا ولی کے کیا ہے تو یہ نکاح ناجائز ہے اور اگر یہ نکاح ولی کی ولایت سے ہوا ہے تو جائز ہے۔واللّٰه أعلم بالصواب۔ کتبہ:محمد عبد الرحمن المبارکفوري،عفا اللّٰه عنہ۔[1] وقوعِ طلاق کے لیے بیوی کی رضا مندی ضروری نہیں ہے: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ عرصہ تقریباً پانچ چھے سال کا ہوتا ہے کہ ایک شخص مسمیٰ فقیری حجام کا عقد مسماۃ امامن کے ساتھ حسبِ شرع شریف ہوا،لیکن ابتدائے وقت سے اس وقت تک بوجوہ چند در چند درمیان زوجین مذکورین کے اتفاق نہیں ہوا،برابر نا اتفاقی رہا کرتی ہے اور نہ آیندہ کوئی امید اتفاق کی پائی جاتی ہے،پس بوجوہ بالا مسمی فقیری مذکور اپنی زوجہ مذکورہ کو طلاق دیتا ہے اور مسماۃ امامن مذکور خوشی سے بوجہ شرارت طلاق زبانی منظور نہیں کرتی،جیسا کہ آج تک اسے ہر طرح سے تنگ کیا،اسی طرح اب بھی تنگ کرتی ہے،پس ایسی حالت میں اگر فقیری مذکور اپنی زوجہ کو تحریری طلاق دے دے تو جائز ہے یا نہیں اور اگر تحریری طلاق جائز ہے تو اس کا کیا مضمون ہونا چاہیے؟ جواب:صورتِ مسئولہ میں مسمی فقیری مذکور اپنی زوجہ کو تحریری طلاق دے دے تو جائز ہے اور اس کا مضمون یہ ہونا چاہیے کہ میں مسمی فقیری نے اپنی زوجہ مسماۃ امامن کو طلاق دے دی،مسمی فقیری کو چاہیے کہ جب اس کی زوجہ مسماۃ امامن حیض سے پاک ہو تو اس وقت دو گواہوں کے روبرو اسی مضمون سے اس کو طلاق دے دے،پھر طلاق دے کر اسی مضمون کو لکھ دے اور ان دونوں گواہوں کی گواہی بھی لکھ دے۔ہاں واضح ہو کہ جب شوہر شریعت کے مطابق اپنی زوجہ کو طلاق دے گا،زبانی دے یا تحریری،تو طلاق خواہ مخواہ پڑ جائے گی،چاہے اس کی زوجہ اس کو منظور کرے یا نہ کرے،طلاق کا واقع ہونا زوجہ کی منظوری پر موقوف نہیں ہے۔ پس صورتِ مسئولہ میں مسمیٰ فقیری اگر مسماۃ اما من کو شریعت کے مطابق زبانی طلاق دے چکا ہے اور مسماۃ امامن کو اس سے انکار نہیں ہے تو طلاق واقع ہوگئی،مسماۃ امامن منظور کرے یا نہ کرے،اس صورت میں اب طلاق تحریری کی کچھ ضرورت نہیں ہے اور اگر مسماۃ امامن کو طلاق دے چکا ہے،مگر اس کو اس کا اقبال نہیں ہے،بلکہ انکار کرتی ہے اور کہتی ہے کہ تجھے طلاق نہیں دی ہے تو اس صورت میں طلاق تحریری کی البتہ ضرورت ہے۔واللّٰه تعالیٰ أعلم بالصواب۔
Flag Counter