Maktaba Wahhabi

534 - 647
صحیح۔وصیت علی۔الجواب صحیح۔محمد ضمیر الحق،عفي عنہ۔[1] حقہ کشی کی شرعی حیثیت: سوال:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلے میں کہ زید کہتا ہے کہ حقہ کشی تمباکو کھانا اور استعمال اس کا ناک میں حرام ہے اور پانی اس کا ناپاک ہے،پس زید کا یہ قول صحیح ہے یا غلط؟ جواب:واضح ہو کہ حقہ کشی میں علما کا اختلاف ہے۔بعض حرمت کے قائل ہیں اور بعض اباحت مع الکراہت کے اور بعض کے نزدیک مکروہ تحریمی ہے۔رد المحتار میں ہے: ’’اضطربت أراء العلماء فیہ،فبعضھم قال بکراھتہ،وبعضھم قال بحرمتہ،وبعضھم بإباحتہ،وأفردوہ بالتالیف،وفي شرح الوھبانیۃ ع یمنع من بیع الدخان وشربہ وشاربہ في الصوم لا شک یفطر وللعلامۃ الشیخ الأجھوري رسالۃ،نقل فیھا أنہ أفتیٰ بحلہ من یعتمد علیہ من أئمۃ المذاھب الأربعۃ۔قلت:وألف في حلہ سیدنا العارف عبد الغني النابلسي الحنفي رسالۃ،سماھا:’’الصلح بین الإخوان في إباحۃ شرب الدخان‘‘ وأقام الطامۃ البکریٰ علیٰ القائل بالحرمۃ أو الکراھۃ،فإنھما حکمان شرعیان لا بد لھما من دلیل،ولا دلیل علیٰ ذلک،فإنہ لم یثبت إسکارہ ولا تفتیرہ،ولا إضرارہ،وإن فرض إضرارہ للبعض لا یلزم تحریمہ علیٰ کل أحد‘‘[2] انتھیٰ [حقہ نوشی کے متعلق علما کی مختلف رائیں ہیں،بعض اس کو مکروہ کہتے ہیں،بعض حرام اور بعض مباح،علما نے اس پر مستقل رسالے لکھے ہیں۔شرح وہبانیہ میں ہے:حقہ نوشی منع ہے اور اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔شیخ علی اجہوری نے اس کو حلال کہا ہے،انھوں نے اس پر ایک رسالہ لکھا ہے اور کہا ہے کہ ائمہ اربعہ کے پیروؤں میں سے چوٹی کے علما نے اس کو حلال کہا ہے۔سید عبدالغنی نابلسی حنفی نے ایک رسالہ بنام ’’الصلح بین الإخوان فی إباحۃ شرب الدخان‘‘ لکھا اور حرام و مکروہ کہنے والوں پر ایک قیامت بپا کر دی اور لکھا کہ کراہت اور حرمت دونوں شرعی حکم ہیں،ان کے لیے دلیل کا ہونا لازمی ہے اور اس کی کوئی دلیل نہیں۔اس کا مسکر یا مفتر یا مغر ہونا ثابت نہیں ہے اور اگر بفرضِ محال بعض لوگوں کے لیے مغر بھی ہو تو یہ ہر ایک پر حرام ہونے کی دلیل کیسے بن جائے گا؟] شیخ عبد الخالق زبیدی تحریر فرماتے ہیں:
Flag Counter