Maktaba Wahhabi

654 - 647
پس اس خاص صورت میں وہ قانونِ کلی (حدیث ابن عباس) توڑا نہیں گیا ہے،بلکہ بہ دلالت قرآن اس سے اس خاص صورت کو مستثنیٰ کر لیا گیا ہے۔ رہا مسئلہ تشبیب،سو یہ متفق علیہ نہیں ہے،بلکہ اس میں اختلاف ہے۔بعض اہلِ علم کے نزدیک اس صورت میں دونوں بیٹیوں کو دے کر جو بچا،اس کا وارث مرد ہی ہوگا اور سب زنِ مادہ محروم ہوں گی۔شریفیہ (ص:۲۸) میں ہے: ’’وقال بعض المتأخرین:لا یعصبھن،بل الباقي للغلام خاصۃ‘‘ ’’بعض متاخرین کا قول ہے کہ مرد عورتوں کو عصبہ نہیں بنائے گا،بلکہ باقی ترکہ مرد ہی پائے گا۔‘‘ یعنی مثالِ مذکور میں دونوں بیٹیوں کو دے کر جو بچا،وہ سکڑوتا ہی کو ملے گا اور دونوں پوتیاں اور پڑوتی اور سکڑوتی محروم ہیں۔ دوسرا اعتراض: یہ حدیث:(( ألحقوا الفرائض۔۔۔الخ )) کسی خاص مسئلے کے متعلق فرمائی گئی ہے،مثلاً:یہ صورت کہ کوئی شخص ماں،بیٹی،باپ،چچا اور بھائی چھوڑ کر مر گیا،اس کے بارے میں یہ فرمانا بالکل صحیح ہے کہ ذوی الفروض کے حقوق دے کر جو بچے وہ قریب ترین مرد کو دے دو،لیکن اس کو عام اصول قرار دینا صریحاً قرآن کے منافی ہے۔ مثلاً:مثال نمبر1: مسئلہ ۶ تـصحیــ ۱۸ ماں بیٹی بہن بھائی  ۳ ۹ ۲ ۴  یہاں ماں اور بیٹی کو ان کا حصہ دینے کے بعد بقیہ بھائی کو ملنا چاہیے،کیوں کہ وہ اولی رجل ذکر ہے،لیکن قرآن شریف یہاں بھی بھائی بہن دونوں کو وارث بتاتا ہے اور بھائی کا نصف بہن کو دلاتا ہے،اب سوچیے کہ اس حدیث کو قانونِ کلی قرار دینے سے قرآن شریف کے خلاف پڑتی ہے اور غلط ہو جاتی ہے،اس لیے یقینا یہ کسی خاص مسئلے کے متعلق ہوسکتی ہے۔ جواب: اس حدیث کو قانونِ کلی قرار دینے سے نہ یہ قرآن مجید کے خلاف پڑتی ہے اور نہ غلط پڑتی ہے۔سنیے! رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے چوں کہ اس حدیث کو بطورِ قانونِ کلی اور ایک عام قاعدے کے بیان فرمایا ہے اور اس قانونِ کلی کے منحصر فی فردِ واحد ہونے پر کوئی دلیل قائم نہیں ہے،اس لیے عام اہلِ علم نے اس حدیث کو قانونِ کلی ہی قرار دیا ہے،لیکن اس کے عموم اور کلیت کا دائرہ اتنا وسیع نہیں کیا ہے کہ یہ حدیث آیت:{یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ
Flag Counter