Maktaba Wahhabi

634 - 647
کتاب الفرائض عورتوں کو حقِ وراثت سے محروم رکھنا گناہ ہے: سوال:علماے دین و مفتیانِ شرع متین کی خدمت میں گزارش ہے کہ سوالاتِ ذیل کے جوابات ازروئے شرع شریف مدلل بیان فرما کر اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اجرِ جزیل و ثوابِ جمیل حاصل کریں: 1۔جب انگریزی سرکار نے پنجاب میں دخل کیا تو ایک شہر کے مسلمانوں سے بروقت بندوبست قاعدہ رواج عام کے یہ دریافت کیا کہ تم لوگوں میں سے کسی کے مرنے پر اس کی جائداد منقولہ وغیر منقولہ یعنی اس کا ترکہ شرع محمدی کے موافق وارثوں میں تقسیم کرانا منظور کرتے ہو یا کہ ہندو رواج کے موافق،تاکہ اسی کے موافق قانون پاس ہو کر عدالتوں میں فیصلہ ہوا کرے؟ یہ قاعدہ مقرر کرنے کے بعد کوئی وارث کبھی اس برخلاف حصہ لینے کا عدالت میں اگر دعویٰ کرے تو نہ سنا جائے گا،اِس پر مسلمانوں نے متفق ہو کر لکھوا دیا کہ ہم کو اپنے مرنے کے بعد جائداد منقولہ و غیر منقولہ یعنی ترکہ کا وارثوں میں تقسیم کرانا مطابق رواج قدیم کے منظور ہے،یعنی ہمارے مرنے کے بعد لڑکی (دختر) کا کچھ حصہ نہیں ہو گا اور زوجہ اگر نکاحِ ثانی نہ کرے تو اپنی حین حیات تک اپنے خاوند متوفی کے مال سے صرف خوراک و پوشاک کی مستحق ہے اور اگر نکاحِ ثانی کرے تو ایک پیسے کے ملنے کی بھی مستحق نہیں۔ اِس پر انگریزی سرکار نے ان کے لکھوانے کے مطابق قانون پاس کر کے عدالتوں میں قائم کر دیا کہ یہاں کے مسلمانوں میں سے کسی کے مرنے پر اُس کے ترکے کا لڑکی (دختر) یا زوجہ اگر کچھ دعویٰ کرے گی تو منسوخ ہو گا۔عرصہ تخمیناً پچپن (۵۵) سال کا ہوا کہ گورنمنٹ نے مرتبہ اول دریافت کر کے یہ قانون پاس کیا تھا،پھر جدید بندوبست یعنی اس اول مرتبہ کے دریافت سے بیس برس بعد پھر گورنمنٹ نے تقسیمِ وراثت کے متعلق اسی طرح سے دریافت کیا جیسا کہ سابق بندوبست میں دریافت کیا تھا،اِس پر بھی سب نے متفق ہو کر لکھوا دیا کہ رواج سابق منظور ہے،پھر بار سوم بیس سال بعد گورنمنٹ نے جدید بندوبست کے وقت بھی مثل سابق وراثت کے متعلق دریافت کیا تو بھی سب نے متفق ہو کر یہی لکھوایا کہ رواج سابق منظور ہے،یعنی ترکہ سے لڑکی (دختر) کا کچھ حصہ نہ ہو گا اور اگر زوجہ نکاح ثانی نہ کرے تو تاحین حیات خاوند متوفی کے مال سے خوراک پوشاک کی مستحق ہے،اگر نکاح ثانی کرے تو ایک پیسے کے لینے کی بھی مستحق نہ ہو گی،گو اس درمیان میں علماے دین نے کئی مرتبہ از حد فہمایش کی اور بار بار وعظوں میں بیان کر دیا کہ مذکورہ بالا رواج بالکل قرآن مجید کے خلاف ہے اور ہندو کفار کے مطابق ہے،اِس پر
Flag Counter