ان سب احادیث کے ملانے سے وہی بات ثابت ہوتی ہے جو لکھی گئی اور جو صاحب یہ فرماتے ہیں کہ مؤذن کے اذان شروع کرتے ہی صحابہ سنت پڑھنے کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے اور ابن ماجہ کی حدیث مذکور فی السوال سے استدلال کرتے ہیں،نیز یہ بھی فرماتے ہیں کہ مغرب کا وقت بہت تنگ ہے،اس لیے صحابہ ایساکرتے تھے،سو واضح رہے کہ ابن ماجہ کی حدیث مذکور صحیح نہیں ہے،[1] اس حدیث کو شعبہ نے علی بن زید بن جدعان سے روایت کیا ہے اور علی بن زید بن جدعان ضعیف ہے۔[2] (تقریب التہذیب)
علاوہ اس کے اس حدیث میں اجمال اور کئی احتمال ہیں،پس اس حدیث سے استدلال کرنا صحیح نہیں اور اسی طرح پر یہ خیال کہ ’’مغرب کا وقت بہت تنگ ہے،اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہم اذان کے شروع ہوتے ہی سنت پڑھنے کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے‘‘ صحیح نہیں ہے کہ اذان اور اقامت کے درمیان دو رکعت پڑھنے کی گنجایش نہ ہو۔اس خیال کا غلط ہونا احادیث مذکورہ بالا اور دیگر احادیث سے ظاہر ہے۔ھذا ما عندي،واللّٰه تعالیٰ أعلم
کتبہ:محمد عبد الرحمن المباکفوري،عفا اللّٰه عنہ
الجواب صحیح. ابن ماجہ کی حدیثِ مذکور کا ظاہر مطلب یہ ہے کہ اذان مغرب ہوجانے کے بعد اس کثرت سے لوگ دو رکعت سنت پڑھنے کو کھڑے ہوجاتے کہ نیا آدمی جو آتا تو اس کو گمان ہوتا کہ یہ اذان نہ تھی،بلکہ اقامت تھی اور یہ لوگ جو اس کثرت سے کھڑے ہوگئے ہیں،نمازِ مغرب پڑھنے کے لیے کھڑے ہوگئے ہیں اور اس گمان کے ہونے کی وجہ اذان کے بعد کثرت سے لوگوں کا سنت پڑھنے کے لیے کھڑا ہوجانا ہے،جیسا کہ اس پر لفظ ’’من کثرۃ من یقوم‘‘ صراحتاً دلالت کرتا ہے اور ابن ماجہ کی اس حدیث سے ہرگز یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اذان مؤذن کے شروع کرتے ہی صحابہ سنت پڑھنے کے لیے کھڑے ہو جاتے تھے۔
ابن ماجہ کی یہی حدیث بسندِ صحیح بخاری اور کتاب قیام اللیل میں مروی ہے۔بخاری کا لفظ یہ ہے:’’کان المؤذن إذا أذن قام ناس من أصحاب النبي صلی اللّٰه علیہ وسلم۔۔۔الخ‘‘[3] اور ’’قیام اللیل‘‘ کی روایت کے الفاظ یہ ہیں:’’کان المؤذن یؤذن علی عہد رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم صلاۃ المغرب،فیبتدر لُبابُ أصحاب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم۔۔۔الخ‘‘[4] ان الفاظ سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم اذان ہوجانے کے بعد سنت شروع کرتے تھے۔[5] واللّٰه تعالیٰ أعلم۔
|