Maktaba Wahhabi

99 - 190
ہائے نہیں کہی۔ (ابنِ کثیر)امام طاؤس رحمہ اللہ کے علاوہ یہی بات امام مجاہد رحمہ اللہ نے بھی فرمائی ہے۔( ابن ابی شیبہ) امام عطاء رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ہمارے اسلاف ہر اس کلام کو مکروہ سمجھتے تھے جو کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ ہو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے اس کا تعلق نہ ہو، یا جائز دنیوی فائدہ اس میں نہ ہو۔ (ابن ابی شیبہ) یہ زمانہ اور زندگی بڑی قیمتی ہے اسے فضول باتوں میں یا لایعنی مشاغل میں ضائع کرنا کوئی عقلمندی نہیں، لایعنی امور سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہر حال روکا ہے، اس حکم کی نافرمانی پر اگر باز پرس ہو تو انسان کو اس بارے میں ابھی سے فیصلہ کرنا چاہیے کہ جواب کیا ہو گا ، اور یہ بھی کہ یہ لایعنی امور مقصدِ زندگی تو بہر حال نہیں ہیں،قرآنِ مجیدکے ظاہری سیاق سے تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا ہر قول و عمل لکھا جاتا ہے۔ انسان کے دل میں جو خطرات آتے ہیں انھیں فرشتے نہیں لکھتے، کیا وہ ان کی دسترس سے باہر ہیں یا ان کے لکھنے کے مکلف نہیں ہیں؟قرآنِ مجید کے عام الفاظ ﴿يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ﴾ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ نیت وارادہ کو بھی لکھتے ہیں،کیونکہ جس طرح اعضاء وجوارح کا عمل ہے اسی طرح نیت دل کا فعل وعمل ہے، اس کی دلیل حسبِ ذیل حدیث سے بھی ہوتی ہے،کہ نیکی کے قصد وارادہ کو بھی لکھا جاتا ہے،چنانچہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ گ کا ارشاد ہے کہ إِذَا أَرَادَ عَبْدِیْ أَنْ یَّعْمَلَ سَیِّئۃً فَلََا تَکْتُبُوْھَا عَلَیْہِ حََتّٰی یَعْمَلَھَا، فَإِنْ عَمِلَھَا فَاکْتُبُوْھَابِمِثْلِھَا وَإِنْ تَرَکَھَا مِنْ أَجْلِیْ فَاکْتُبُوْھَا لَہٗ حَسَنَۃً، وَإِنْ أَرَادَ أَنْ یَعْمَلَ حَسَنَۃً فَلَمْ یَعْمَلْھَا اکْتُبُوْ ھَا لَہٗ حَسَنَۃً، فَإِنْ عَمِلَھَا فَاکْتُبُوْھَا لَہٗ بِعَشْرِ أَمْثَالِھَا إِلٰی سَبْعِمِائَۃٍ(مسلم:رقم ۳۳۶) ’’میرا بندہ جب کسی گناہ کا ارادہ کرے تو اسے نہ لکھو تا آنکہ وہ اس پر عمل کرے، اگر اس پر عمل کرے تو اسی کی مثل اسے لکھو، اور اگر میری وجہ سے وہ اس ارادہ پر عمل نہ کرے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو، اور اگر کوئی نیکی کرنے کا ارادہ کرے مگر وہ عمل نہ کر سکے تو اس کے لیے ایک نیکی لکھ دو ،پھر اگر اس پر
Flag Counter