﴿أَفَلَمْ یَنْظُرُوْآ إِلَی السَّمَآئِ فَوْقَہُمْ کَیْفَ بَنَیْنَاہَا وَزَیَّنَّاہَا وَمَا لَہَا مِنْ فُرُوْجٍ ﴾(۶) ’’کیا انھوں نے اپنے اوپر آسمان کی طرف نہیں دیکھا؟ کس طرح ہم نے اس کو بنایا اور اس کو آراستہ کیا اور اس میں کہیں کوئی رخنہ نہیں۔‘‘ پہلی آیت میں قیامت کے برحق ہونے پر اللہ تعالیٰ کے علمِ کامل کا بطورِ دلیل ذکر ہے اور اس آیت میں قدرتِ کا ملہ کے حوالے سے دلیل کا تذکرہ ہے، کہ کبھی انھوں نے نگاہ اٹھا کر آسمان کو نہیں دیکھا کہ ہم نے اس کو کس طرح بنایا اور رات کو اسے چاند ستاروں اور دن کو آفتاب کی روشنی میں نیلگوں رنگ سے سجایا ہے۔ یہ اتنی بلندی پر چھت اور اس قدر وسیع وعریض کہ جس کے طول وعرض کا آج تک اندازہ نہیں ہو سکا ۔ پھر یہ دو چار برس کا قصہ نہیں،بلکہ حضرتِ انسان کی پیدائش سے سال ہا سال پہلے یہ آسمان بنایا،جس کے بارے میں ماہرینِ فلکیات کا اندازہ ہے کہ روشنی کی رفتار کے مطابق تیز ترین ہوائی جہاز جو ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سکینڈ کی رفتار پر چلے، وہ آسمان کے گرد چکر لگائے تو اس ہوائی جہاز کو آسمان کا چکر لگانے میں ایک ارب سال لگیں گے، ایسا وسیع وعریض آسمان بغیر ستونوں کے بنادیا۔ اس میں ابھی تلک کوئی خلل واقع نہیں ہوا، اس میں کوئی شکن نہیں پڑی، انسانوں کی بنائی ہوئی چھتیں ستونوں کے بغیر بنتی نہیں، پرانی ہو جائیں تو ان کا رنگ وروپ بگڑ جاتا ہے ۔ چھت کمزور ہو جاتی ہے۔ بار بار کی رپیرنگ کے باوجود بالآخر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتی ہے۔ مگر آسمان ہے کہ نہ اس کا رنگ وروغن بدلا، نہ اس کی خوبصورتی میں فرق آیا، شکست وریخت تو کجا ابھی تلک اس میں کوئی شکن نہیں پڑی، جس طرح روزِا ول کو تھا آج بھی بدستور اسی طرح ہے، اور جب تک اللہ تعالیٰ چاہے گا اسی طرح رہے گا۔ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی یہ قدرتِ کا ملہ ہے تو اس کے لیے انسانوں کو دوبارہ پیدا کرنا کیونکر |