﴿مَنْ خَشِیَ الرَّحْمٰنَ بِالْغَیْبِ وَجَآئَ بِقَلْبٍ مُّنِیْبٍ ﴾(۳۳) ’’جو بغیر دیکھے رحمان سے ڈرا اور حاضر ہوا متوجہ رہنے والے دل سے۔‘‘ جنت میں جانے والوں کا یہ تیسرا وصف ان جہنمیوں کے برعکس ہے، جو قیامت کے بارے میں شک وریب کا شکار رہے اور اللہ سے بے خوف زندگی گزاری ۔ مگر ایک مؤمنِ صادق ،اللہ تعالیٰ کو بِن دیکھے اور قیامت پر یقین رکھتے ہوئے،اللہ سے ڈرتا رہا ،اور وفاشعار زندگی گزار ی،بلکہ مؤمن ومتقی کا تو بنیادی اور پہلا وصف ہی یہ ہے کہ وہ ﴿یُؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ ﴾(البقرۃ: ۳) غیب پر ایمان رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہوں ،فرشتے ہوں، اللہ کے انبیاء اوراللہ کی کتابیں ہوں، قیامت ہو، جنت ودوزخ ہو، عذابِ قبر ہو، تقدیر کا مسئلہ ہو ہر ایک پر اصلاً ایمان بالغیب ہے، ایک کافر کا تو قیامت پر یقین نہیں اس کی آنکھیں تب کھلیں گی جب آنکھوں سے قیامت کو دیکھ لے گا۔(ق:۲۲) اسے ’’علمِ یقین ‘‘ تب حاصل ہو گا جب وہ آنکھ سے جہنم کو دیکھ لے گا۔(التکاثر :۷) مگر مومن کو اس کا پہلے ہی یقین تھا اور اس سے ہمیشہ خوف کھاتا تھا۔ ’’رحمن کو بِن دیکھے ڈرنا‘‘ یعنی نظر آنے والے انجام اور قوت وطاقت رکھنے والوں کے خوف سے زیادہ’’ رحمن‘‘ سے ڈرنا ۔ یہاں چند باتیں قابلِ غور ہیں۔ ۱۔ ’’ڈر‘‘ کے لیے لفظ’’خشی‘‘ استعمال ہوا ہے،یہ اس خوف اور ڈر کو کہتے ہیں جو کسی کی عظمت کی وجہ سے طاری ہو جائے اور یہ کیفیت عام طور پر اس چیز کا علم ہونے سے ہوتی ہے جس سے انسان ڈرتا ہے، یہی وجہ ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿إِنَّمَا یَخْشَی اللّٰہَ مِنْ عِبَادِہِ الْعُلَمَآئُ﴾(فاطر:۲۸) ’’اللہ سے اس کے بندوں میں سے وہی ڈرتے ہیں جو صاحبِ علم ہیں۔ ‘‘رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:أَمَا وَاللّٰہِ إِنِّیْ لََأَخْشَاکُمْ لِلّٰہِ وَأَتْقَاکُمْ لَہٗ ۔(بخاری:۵۰۶۳مسلم) ’’خبردار اللہ کی قسم! میں تم |