Maktaba Wahhabi

142 - 190
﴿یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امْتَلَأْتِ وَتَقُوْلُ ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ ﴾(۳۰) ’’وہ دن جب ہم جہنم سے پوچھیں گے کیا تو بھر گئی ؟اور وہ کہے گی کیا اور کچھ ہے۔‘‘ یہ جہنمیوں کے بارے میں اللہ میں کے غضب کا اظہار ہے کہ اللہ تعالیٰ مجرموں کو اپنی شانِ بے نیازی سے جہنم میں پھینک دے گا اور پھر اس سے پوچھے گا تیرا پیٹ بھرا ہے یا نہیں؟ جہنم سے اس کے بھرے جانے کا سوال اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا تھا:﴿لاََ مْلَئَنَّ جَہَنَّمَ﴾ الآیہ (ھود:۱۱۹،السجدۃ:۱۳) ’’کہ میں شیطان اور اس کے متبعین سے جہنم کو بھروں گا۔‘‘ اسی فیصلے کی بنا پر اللہ جہنم سے پوچھے گا کیا تو بھر گئی ہے؟ تو وہ جواب دے گی کیا اور کچھ ہے، اس میں جہنم کے غصے کی طرف اشارہ ہے کہ وہ بڑے غیظ وغضب سے کہے گی :ابھی اور ہیں تو لائیے آج کوئی مجرم چھوٹنے نہ پائے، مجھ میں ابھی بڑی گنجائش ہے۔ صحیح بخاری میں اسی آیت کی تفسیر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہنم میں مجرموں کو پھینکا جائے گا اور وہ کہتی جائے گی ابھی کیا اور کچھ ہے۔ تاآنکہ اللہ رب العزت اس میں اپنا قدم رکھیں گے تو وہ سمٹ جائے گی اور پکار اٹھے گی :بس بس! (بخاری :رقم ۴۸۴۸، ۶۶۶۱، ۷۳۸۴وصحیح مسلم:۷۱۷۷) یہی روایت حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔(صحیح بخاری:رقم ۴۸۴۹، ۴۸۵۰، ۷۴۴۹ وغیرہ) حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ تفصیل بھی ہے کہ جنت اور دوزخ باہم آپس میں تکرار کرنے لگیں،دوزخ نے کہا: مجھ میں وہ لوگ ہوں گے جو بڑے مغرورو سر کش ہیں،جنت نے کہا: معلوم نہیں کیا وجہ مجھ میں وہ لوگ آئیں گے جو مسکین غریب اور نظروں سے گرے ہوئے ہوں گے۔ اللہ تعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے میں تیرے ذریعے سے اپنے جن بندوں پر چاہوں گا رحم کروں گا،اور جہنم سے
Flag Counter