﴿وَکَمْ أَہْلَکْنَا قَبْلَہُمْ مِّنْ قَرْنٍ ہُمْ أَشَدُّ مِنْہُمْ بَطْشاً فَنَقَّبُوْا فِیْ الْبِلَادِ ہَلْ مِنْ مَّحِیْصٍo إِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَذِکْرٰی لِمَنْ کَانَ لَہٗ قَلْبٌ أَوْ أَلْقَی السَّمْعَ وَہُوَ شَہِیْدٌo﴾ ( ۳۶، ۳۷) ’’اور ہم کتنی قومیں ان سے پہلے ہلاک کر چکے ہیں، وہ ان سے بہت زیادہ طاقت ور تھیں تو انھوں نے زمین کا کو نا کونا چھان مارا، کیا وہ کوئی جائے پناہ پاسکے؟ اس میں عبرت ہے ہر اس شخص کے لیے جو دل رکھتا ہو یاجو کان لگا کر بات سنے اور وہ حاضر ہے۔‘‘ ان آیات میں قریشِ مکہ کو خبردار کیا گیا ہے کہ وہ اپنی قوت اور شان وشوکت کے گھمنڈ میں نہ آئیں،ان سے پہلے کتنی قومیں ہو گزری ہیں جو قوت وشوکت میں ان سے زیادہ تھیں، مگر اللہ تعالیٰ کا ان پر عذاب آیا تو وہ ہلاک ہو گئیں اور ان میں جو بچ گئے وہ اِدھر اُدھر تتر بتر ہو گئے۔ ﴿فَنَقَّبُوْا فِیْ الْبِلَادِ﴾کے معنی ہیں کہ وہ شہروں میں چل نکلے۔ نَقَّبُوْا ’’النقب‘‘ سے ہے جس کے اصل معنی ہیں دیواریا چمڑے میں سوراخ کرنا۔ اسی سے ’’نقب القوم‘‘ ہے یعنی قوم کا چلنا پھرنا،(یعنی گشت کرنا)جبکہ لکڑی میں سوراخ کرنے کو’’ثقب‘‘ کہتے ہیں۔ (مفردات) اور’’ محیص‘‘ کے معنی ہیں پناہ گاہ۔ اسی آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے تاج العروس میں علامہ زبیدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: خَرَقُوْا الْبِلَا دَ فَسَارُوْافِیْھَا طَلَباً لِّلْمَھْرَبِ فَھَلْ کَانَ لَھُمْ مَحِیْصٌ مِنَ المَوْتِ۔( تاج:۴۹۲ج۱) ’’انھوں نے شہروں کو پھاڑا وہ ان میں جائے پناہ تلاش کرنے کے لیے |