﴿وَاسْتَمِعْ یَوْمَ یُنَادِ الْمُنَادِ مِنْ مَّکَانٍ قَرِیْبٍo یَوْمَ یَسْمَعُوْنَ الصَّیْحَۃَ بِالْحَقِّ ذٰلِکَ یَوْمُ الْخُرُوْجِo إِنَّا نَحْنُ نُحْیِیْ وَنُمِیْتُ وَإِلَیْنَا الْمَصِیْرُo یَوْمَ تَشَقَّقُ الْأَرْضُ عَنْہُمْ سِرَاعاً ذٰلِکَ حَشْرٌ عَلَیْنَا یَسِیْرٌ ﴾ ( ۴۱۔۴۴) ’’اور سننے کے لیے کان لگائے رکھو جس دن منادی کرنے والا قریب سے پکارے گا،جس دن سنیں گے چیخ (صور کی آواز) کو ٹھیک طور پر ، وہ دن (قبروں سے) نکلنے کا ہے، ہم ہی زندہ کرتے اور ہم ہی مارتے ہیں اور ہماری ہی طرف لوٹنا ہے، اس دن ان کے اوپر سے زمین پھٹ جائے گی اور وہ تیز تیز جائیں گے یہ حشر ہمارے لیے آسان ہے۔‘‘ پہلی آیات میں حکم تھا کہ آپ کفار کی باتوں پر صبر کریں ،نمازیں پڑھیں اورتسبیح وتحمید میں مشغول رہیں، اب فرمایا: کہ اسی کے ساتھ ساتھ آپ قیامت کا انتظار کریں جو ایک حقیقت واقعی ہے، اس دن اس کے انکار کی حقیقت منکشف ہو جائے گی۔ ﴿اسْتَمِعْ ﴾ کے معنی آواز کو سننے کے لیے کان لگانے کے ہیں، جس میں اشارہ ہے کہ یہ بالکل قریب ہے جسے کفاررَجْعٌ بَعِیْدٌ اور﴿إِنَّہُمْ یَرَوْنَہُ بَعِیْداً﴾ (المعارج:۷) ناممکن سمجھتے ہیں،مگر ہم اسے قریب قرار دیتے ہیں کہ یہ تو قریب ہے اور ہونے ہی والی ہے اور یہ ہو گی بھی، ﴿تاتیھم بغتۃ﴾اچانک اس لیے اس کی تیاری کریں اور اس آواز ۂ حق کو سننے کے لیے کان لگائے رکھیں۔ یا یہ کہ اے نبی!میرا حکم یا فیصلہ کان لگا کر سنیں ، اور وہ ہے جس کی تفصیل بعد کی |