کشی کا عالم یہ تھا کہ گنتی کے چند افراد ہی ان کے ہمنوا بن سکے، ﴿وَمَآ اٰمَنَ مَعَہٗ إلَّا قَلِیْلٌ﴾ (ھود:۴۰)بعض نے ان کی تعداد ۷۰ ،۸۰اور بعض نے صرف دس (۱۰) ذکر کی ہے۔ سورۃ الاعراف ،یونس ، ھود، الأنبیاء، المؤمنون، الفرقان ،الشعراء، العنکبوت، الصٰفٰت ، صٓ، المؤمن، الشوری، الذاریات ،النجم،القمر، الواقعہ اور سورۃ نوح میں حضرت نوح علیہ السلام اور ان کی قوم کا تذکرہ ہے۔ اصحاب الرس ایک قوم’’اصحاب الرس‘‘ تھی۔ ’’رس‘‘ کے معنی پرانے کنوئیں کے ہیں،اس لیے اصحاب الرس کے معنی ہوئے کنوئیں والے،بعض نے کہا ہے کہ’’رس‘‘ ایک وادی کا نام ہے، جاہلی شاعر نابغہ نے کہا ہے: وَھُنَّ یُوَادِی الرَّسِّ کَالْیَدِ لِلْفَم ’’اور وہ وادی رس کے لیے ایسے تھے جیسے ہاتھ منہ کی طرف‘‘(المفردات) یہ وادی کہاں ہے ؟اور کونسی ہے؟ یا یہ کنواں کہاں ہے؟ اس کے بارے میں مختلف اقوال ہیں۔ امام ابن جریر رحمہ اللہ اور امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے سورۃ الفرقان کی آیت ۳۸ کے تحت اور حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے البدایہ میں بھی اس کی تفصیل بیان کی ہے۔ مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی مرحوم نے قصص القرآن میں بھی بڑی تفصیل سے اس پر بحث کی اور مختلف آرا پر بڑا مناسب تبصرہ بھی کیا،اور اپنا رجحان یہ ظاہر کیا ہے کہ یہ کسی قدیم العہد قوم کا تذکرہ ہے اور یہی بات زیادہ مناسب معلوم ہوتی ہے، کیوں کہ اس قوم کا تذکرہ سورۃ الفرقان میں بھی حضرت نوح علیہ السلام کے بعد قومِ عاد وثمود کے ساتھ ہوا ہے۔ حضرت ابنِ عباس رضی اللہ عنہما کا ایک یہ قول ہے کہ یہ اذر بیجان میں ایک کنواں تھا۔ اور عکرمہ رحمہ اللہ کا بیان ہے کہ اس قوم نے اللہ کے نبی کو کنوئیں میں ڈال کر مار دیا تھا۔ محض تاریخ اور اس کی تعینات ومباحث قرآنِ مجیدکا موضوع نہیں،بلکہ قرآن کا مقصد موعظت وعبرت ہے اور اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے اس قوم کا ذکر کیا ہے۔ |