﴿وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِہٖ نَفْسُہٗ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَیْہِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِیْدِ﴾(۱۶) ’’اور بے شک ہم نے انسان کو پیدا کیا ہے، اور ہم جانتے ہیں جو وسوسے اس کے دل میں ہیں اور ہم اس کے زیادہ قریب ہیں اس کی رگِ گردن سے۔‘‘ اس آیتِ مبارکہ میں مزید اللہ گ کی قدرتِ کاملہ کا بیان ہے، اور اس میں قیامت کے بارے میں ایک شبہ کا ازالہ بھی ہے ۔منکرینِ قیامت کو یہ اشتباہ بھی تھا کہ کیا یہ ممکن ہے کہ ہر ہر انسان کی زندگی کی جلوتوں اور خلوتوں کو معلوم کیا جا سکے اور ان کا ریکارڈ محفوظ کیا جاسکے اور پھر ایک دن اس کا حساب شروع کر دیا جائے۔ یہ بالکل اسی نوعیت کا اشتباہ تھا جو وہ کہتے تھے کہ جب انسان کے تمام اجزا مٹی میں مل جائیں گے وہ اجزاکہاں کہاں بکھرے پڑے ہیں ؟ان کو از سرِ نوجمع کرنا اور زندہ کردینا کیونکر ممکن ہے، جس کا جواب سورت کی ابتدا میں دیا گیا ہے ۔یہاں بتلایا گیا ہے کہ ہمارا علم اس قدر وسیع اور ہماری قدرت اس قدر بے پایاں ہے کہ انسان کا ظاہر وباہر تو کجا اس کا اندر اور باطن بھی ہمارے علم میں ہے، اس کے دل میں جو وساوس پیدا ہوتے ہیں ،اس کا دل جو چٹکیا ں لیتا اور جو خطرات اس میں اٹھتے ہیں ان سب کو ہم جانتے ہیں ،جیسے ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿وَإِنَّ رَبَّکَ لَیَعْلَمُ مَا تُکِنُّ صُدُوْرُہُمْ وَمَا یُعْلِنُوْنَ ﴾ (النمل :۷۴) ’’اور بے شک تیرا رب جانتا ہے جو ان کے دلوں میں چھپاہوا ہے اور جو وہ علانیہ کرتے ہیں۔‘‘ وہ تو اس علم وقدرت کا مالک ہے کہ ﴿یَعْلَمُ خَائِنَۃَ الْأَعْیُنِ وَمَا تُخْفِی الصُّدُوْرُ ﴾(المؤمن:۱۹) ’’ اللہ جانتا ہے آنکھوں کی خیانت کو اور ان رازوں کو جنھیں سینوں نے چھپا |