رکھا ہے۔‘‘ آنکھیں جو چوری چھپے دیکھتی ہیں اور انسان سمجھتا ہے کہ کوئی دیکھ نہیں رہا ،مگر اللہ تعالیٰ تو اسے دیکھتا ہے اور آنکھوں کی حرکت کو بھی جانتا ہے۔ آنکھ تو کجا ، اللہ تعالیٰ تو دل کے راز بھی جانتا ہے۔ نیز فرمایا: ﴿وَہُوَ اللّہٗ فِی السَّمٰوٰتِ وَفِی الأَرْضِ یَعْلَمُ سِرَّکُمْ وَجَہْرَکُمْ وَیَعْلَمُ مَا تَکْسِبُوْنَ﴾ (الانعام:۳) ’’اور وہی اللہ ہے آسمانوں اور زمین میں ،تمھاری باطنی اور ظاہری باتوں کو جانتا ہے، اور جو کچھ عمل کرتے ہو وہ بھی جانتا ہے۔‘‘ یعنی وہ اللہ تعالیٰ ہی ہے کہ کسی کی کوئی ظاہری وباطنی حرکت اس سے چھپی ہوئی نہیں، اللہ تعالیٰ کے علاوہ جو بھی ہیں وہ حاکم ہو ں یا بزرگ ہوں وہ نہیں جانتے کہ میرے ماننے والے اور معتقدین کے دل میں کیا ہے، وہ بس ظاہری اداؤں سے دیکھتے ہیں کہ میری فرمانبرداری ہو رہی ہے یا نہیں، دلی کیفیات وتأثرات سے وہ بے خبر ہیں۔ کتنے ہیں جو بس مجبوری و مقہوری میں اطاعت گزار بنے ہوئے ہیں، اور زندہ باد کے نعرے لگارہے ہیں۔ مگر ایک اللہ وحدہ لاشریک ہے جو اپنے بندوں کے دلی تأثرات سے بھی واقف ہے اور اس کا قرب سب قربتوں سے زیادہ ہے، چنانچہ فرمایا کہ میں تو انسان کی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب ہوں۔ ﴿الْوَرِیْد﴾ کااطلاق لغوی طور پر شاہ رگ پر بھی ہوتا ہے جو گردن میں ہوتی ہے، اور اس رگ پر بھی جس کا تعلق دل اور جگر سے ہوتا ہے اور وہ خون اور روح کو بدنِ انسانی میں پہنچاتی ہے، مگر طِبی اصطلاح میں جورگیں جگر سے نکلتی اور خون کو جسم میں پہنچاتی ہیں وہ موٹی ہوتی ہیں انھیں’’ورید ‘‘ کہتے ہیں،اور جورگیں دل سے نکلتی ہیں اور خون کی وہ لطیف بھاپ، جسے روح سے تعبیر کیا جاتا ہے، کو انسانی بدن میں پہنچاتی ہیں،انھیں شریا نیں کہا جاتا ہے۔ ان وریدوں اور شریانوں کو کاٹ دیا جائے تو انسان کی زندگی کٹ جاتی ہے۔ گویا بتلایا یہ گیا ہے کہ جن موٹی یا باریک رگوں پر انسانی زندگی کا دارومدار ہے ہم ان سے بھی زیادہ انسان کے قریب ہیں کوئی چیز بھی ہمارے احاطۂ علم سے خارج نہیں ہے۔ ایک اور |