﴿بَلْ کَذَّبُوْا بِالْحَقِّ لَمَّا جَآئَ ہُمْ فَہُمْ فِیْ أَمْرٍ مَّرِیْجٍ ﴾(۵) ’’بلکہ ان کے پاس جس وقت حق آیا اسی وقت انھوں نے اسے جھٹلا دیا۔ پس وہ تو صریح تذبذب کا شکار ہیں۔‘‘ اس آیت میں ان کی شناعت اور بدبختی کو اور کھول کر بیان کر دیا گیا ہے کہ منکرین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تشریف لانے پر تعجب کا اظہار ہی نہیں کیا، بلکہ آگے بڑھ کر ان کی تکذیب کی اور بلا تأمل انھیں معاذ اللہ جھوٹا قرار دیا، جن کے بارے میں یہ آج تک متفق رہے کہمحمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کوئی سچا نہیں، جنھیں یہ صادق وامین کہہ کر پکارتے تھے۔ مگر جوں ہی انھوں نے حق وسچ پر مبنی دعوت دی،تو انھوں نے غور وفکر کرنے اور اسے تسلیم کرنے کی بجائے فی الفور کہہ دیا کہمحمد صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹا ہے اور جھوٹ کہتا ہے۔ معاذ اللہ ’’حق ‘‘سے مراد یہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔یعنی رسول کی اسی تکذیب کا ذکر کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا: کہ منکرین پر ان کی سیاہ کاریوں کی وجہ سے دنیا میں مؤاخذہ ہو تو وہ کہیں گے، کہ اگر ہماری راہنمائی کے لیے رسول آتا تو ہم اس کی دعوت قبول کر لیتے ، مگر ﴿فَلَمَّا جَآئَ ہُمُ الْحَقُّ مِنْ عِنْدِنَا قَالُوْا لَوْلَا أُوْتِیَ مِثْلَ مَا أُوْتِیَ مُوسَی﴾(القصص:۴۸) ’’جب ان کے پاس حق، یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف سے آئے، تو وہ کہنے لگے، کہ انھیں ایسے معجزات کیوں نہیں دیئے گئے جیسے موسیٰ علیہ السلام کو دیئے گئے ؟‘‘ لیکن کیا موسیٰ علیہ السلام کے ان معجزات کو دیکھ منکرین موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لے آئے |