تھے؟ ہر گز نہیں،تو یہ محض اہلِ مکہ عذرِلنگ اور بہانہ بازی ہے۔ سورۃ ص میں یہی بات یوں فرمائی گئی ہے: ﴿وَعَجِبُوْا أَنْ جَآئَ ہُمْ مُّنْذِرٌ مِّنْہُمْ وَقَالَ الْکَافِرُوْنَ ہٰذَا سَاحِرٌ کَذَّابٌ ﴾(ص:۴) ’’انھیں اس بات پر تعجب ہوا کہ ایک ڈرانے والا خود انھی میں سے آگیا اور کافر کہنے لگے یہ ساحر ہے بہت جھوٹا ہے۔‘‘ یہی بات قومِ ثمودنے حضرت صالح علیہ السلام کے بارے میں کہی: ﴿أَأُلْقِیَ الذِّکْرُ عَلَیْہِ مِنْ بَیْنِنَا بَلْ ہُوَ کَذَّابٌ أَشِرٌ ﴾(القمر:۲۵) ’’کیا ہمارے درمیان یہی ایک رہ گیا تھا جس پر اللہ کا ذکر نازل کیا گیا ہے ، بلکہ یہ تو جھوٹا اور بر خود غلط ہے۔‘‘ اسی نوعیت کی بات کفار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں بھی کہتے کہ اسی یتیم کے گھر قرآن نازل ہونا تھا، یہ مکہ اورطائف کے کسی بڑے آدمی پر نازل کیوں نہیں ہوا۔ (الزخرف:۳۱) یا’’الحق‘‘ سے یہاں مرادقرآنِ مجیدہے کہ جب ان کے پاس یہ کتابِ مبین آئی تو انھوں نے اس پر غور وتدبر کرنے کی بجائے اسے جھوٹا قرار دیا، اس کے منزل من اللہ ہونے کا انکار ان کی ضد کا نتیجہ تھا،اگر یہ کسی انسان کا کلام ہوتا تو خود عرب اپنی تمام تر ادبی لن ترانیوں کے اس کی نظیر لانے سے عاجز نہ رہتے ، اگر وہ اس پر غور وفکر کرتے تو جنات کی طرح وہ بھی تسلیم کر تے کہ ﴿إِنَّا سَمِعْنَا کِتَاباً أُنْزِلَ مِنْ بَعْدِ مُوْسیٰ مُصَدِّقاً لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ یَہْدِیْ إِلَی الْحَقِّ ﴾(الاحقاف:۳۰) ’’ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ علیہ السلام کے بعد نازل کی گئی ہے، اپنے سے پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے۔ اور حق کی رہنمائی کرتی ہے۔‘‘ مگر انھوں نے تو اس کتابِ مبین پر کان دھرنے کی بجائے یہ روش اختیار کی کہ: |