﴿ لَا تَسْمَعُوْا لِہٰذَا الْقُرْآنِ وَالْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ ﴾(حم السجدۃ:۲۶) ’’اس قرآن کو ہر گز نہ سنو اور جب پڑھا جائے تو اس میں خلل ڈالو شاید کہ اس طرح تم غالب آجاؤ‘‘ اس لیے ان کی یہ تکذیب دونوں پہلوؤں پر تھی۔ ’’الحق‘‘ سے یہاں بعض حضرات نے قیامت مراد لی ہے، مگر ﴿لَمَّا جَآئَ ہُمْ﴾ کا لفظ اس بات کا قرینہ ہے کہ یہاں قیامت مرادنہیں،بلکہ رسول یا قرآن مراد ہے، اور قیامت جب آئے گی تو وہ کہیں گے : ﴿ہٰذَا مَا وَعَدَ الرَّحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ ﴾ (یٰس :۵۲)کہ یہ ہے جس کا رحمن نے وعدہ کیا تھااور سچ فرمایا تھا انبیاء نے۔ سیاقِ کلام کے اعتبارسے پہلی بات ہی راجح معلوم ہوتی ہے۔ اور اس کا سورۃ ص میں بھی ذکر ہے کہ یہاں مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تکذیب ہے۔ ﴿فَہُمْ فِیْ أَمْرٍ مَّرِیْجٍ﴾ سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ کہ وہ اس معاملے میں بڑے تذبذب اور انتشار کا شکار ہیں۔ ﴿مَرِیْجٍ ﴾ کے معنی خلط ملط ،گڈ مڈ کرنے اور ملا دینے کے ہیں۔ اسی سے المروج ہے۔ جس کے معنی اختلاط اور مل جانے کے ہیں۔ عرب کہتے ہیں :مَرَجَ أمْرُھُمْ کہ ان کا معاملہ ملتبس ہو گیا۔ سورۃ الرحمن میں ہے: ﴿مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ یَلْتَقِیَانِ ﴾ (الرحمن:۱۹) ’’اس نے کھا ری اور شیریں دو دریا جاری کیئے کہ آپس میں باہم مل جاتے ہیں۔ ‘‘یہاں بھی مفہوم یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں وہ کوئی فیصلہ کن رائے نہیں رکھتے،بلکہ آپ کے بارے میں مختلف ہیں اور تضاد کا شکار ہیں ،کبھی آپ کو شاعر کہتے ہیں،کبھی کا ہن قرار دیتے ہیں،کبھی مجنون کہتے ہیں، تو کبھی ساحر کہتے ہیں،بلکہ کبھی کہتے ہیں کہ ان پر کسی نے جادو کر دیا ہے، کبھی کہتے ہیں کہ اس کے پسِ پردہ کوئی اور ہے جو اسے یہ کلام بنا سنوار کر دیتا ہے، کبھی کہتے ہیں کہ بشر نبی نہیں ہو سکتا ۔ مگر یہ بھی کہتے ہیں کہ مکہ اور طائف کے کسی بڑے سردار کو نبی بنایا ہوتا، گویا یہ آپ کے بارے میں ایسی ذہنی الجھن میں پھنسے ہوئے ہیں، جس سے ان کا نکلنا بہت مشکل ہے۔ |