اگر’’الحق‘‘ سے مرادقرآنِ مجیدہے تو اس کے بارے میں بھی وہ الجھن کا شکار تھے۔ کبھی اسے’’ سحرِمبین‘‘ سے تعبیر کرتے تو کبھی اسے’’قولِ شاعر‘‘قرار دیتے اور کبھی اسے ’’قولِ کاہن‘‘ کہتے تھے ۔ امام رازی رحمہ اللہ نے اس کی بجائے فرمایا ہے کہ :یہ مذکورہ آیات ان کی مختلف آرا کے متعلق ہیں کہ اِنَّھُمْ شَکَّوْا فِیْکَ، بَلْ عَجِبُوْا بَلْ کَذَّبُوْا ’’ انھوں نے آپ کے بارے میں شک کا اظہار کیا، بلکہ اس پر تعجب کا اظہار کیا، بلکہ اس کی تکذیب کی۔ ‘‘یوں ان کی گویا تین حیثیتیں یاتین درجے تھے۔ پہلا شک ، اس کے اوپر تعجب کہ شک میں ازالہ اور تبیین کی توقع ہوتی ہے، جبکہ تعجب میں دراصل عدمِ وقوع کا تصور ہوتا ہے، اور اس کے واقع ہونے پر انسان متعجب ہوتا ہے۔ مگر تکذیب میں عدمِ وقوع کا یقین ہوتا ہے، اس لیے اسے حتماً جھٹلادیتا ہے ۔پہلا درجہ شاکین کا، دوسرا ظانین کا اور تیسرا جازمین کا۔ ان کے اسی ترددکو﴿مَرِیْجٍ ﴾ سے تعبیر کیا گیا۔ بلکہ یہ بات تو بدیہی اور روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ جوقرآنِ مجیداور حاملِ قرآن کی تکذیب کرتے ہیں وہ ہمیشہ تضاد فکری میں مبتلا رہتے ہیں۔ اور انھی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرمایا ہے کہ : ﴿إِنَّکُمْ لَفِیْ قَوْلٍ مُّخْتَلِفٍ ﴾(الذاریت:۸) ’’تمھاری بات ایک دوسرے سے مختلف ہے۔‘‘ مولانا مودودی رحمہ اللہ نے کیا خوب فرمایا ہے: ’’کہ تم لوگ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہو اور ہر ایک کی بات دوسرے سے مختلف ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ دنیا ازلی وابدی ہے اور کوئی قیامت بپا نہیں ہوگی، کوئی کہتا ہے کہ یہ نظام حادث ہے اور ایک وقت میں یہ جا کر ختم بھی ہو سکتا ہے ،مگر انسان سمیت جو چیز بھی فنا ہو گی پھر اس کا اعادہ ممکن نہیں ہے۔ کوئی اعادے کو ممکن مانتا ہے، مگر اس کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان اپنے اعمال کے اچھے اور برے نتائج بھگتنے کے لیے بار بار اسی دنیا میں جنم لیتا ہے ۔ کوئی جنت اور جہنم کا بھی قائل ہے، مگر اس کے ساتھ تناسخ کو بھی ملاتا ہے،یعنی اس کا خیال یہ ہے کہ گنا ہگار جہنم میں بھی سزا |