بھگتتا ہے اور پھر اس دنیا میں بھی سزا پانے کے لیے جنم لیتا رہتا ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ دنیا کی زندگی خود ایک عذاب ہے ، جب انسان کے نفس کو مادی زندگی سے لگاؤ باقی رہتا ہے اس وقت تک وہ اس دنیا میں مر مر کر پھر جنم لیتا رہتا ہے اور اس کی حقیقی نجات یہ ہے کہ وہ بالکل فنا ہوجائے۔کوئی آخر ت اور جنت وجہنم کا قائل ہے، مگر کہتا ہے کہ خدا نے اپنے اکلوتے بیٹے کو صلیب پر موت دے کر انسان کے ازلی گناہ کا کفارہ ادا کر دیا ہے، اوراس بیٹے پر ایمان لاکر آدمی اپنے اعمالِ بدکے برے نتائج سے بچ جائے گا۔ پھر کچھ دوسرے لوگ آخرت اور جزاوسزا، ہر چیز کو مان کر بعض ایسے بزرگوں کو شفیع تجویز کر لیتے ہیں جو اللہ کے ایسے پیارے ہیں، یااللہ کے ہاں ایسا زور رکھتے ہیں کہ جو ان کا دامن گرفتہ ہو وہ دنیا میں سب کچھ کر کے بھی سزا سے بچ سکتا ہے۔ ان بزرگ ہستیوں کے بارے میں بھی اس عقیدے کے ماننے والوں میں اتفاق نہیں ہے، بلکہ ہر ایک گروہ نے اپنے الگ الگ شفیع بنا رکھے ہیں۔یہ اختلافِ اقوال خود ہی اس امر کا ثبوت ہے کہ وحی ورسالت سے بے نیازہو کر انسان نے اپنے اور اس دنیا کے انجام پر جب بھی کوئی رائے قائم کی ہے، علم کے بغیر قائم کی ہے،ورنہ اگر انسان کے پاس اس معاملہ میں فی الواقع براہِ راست علم کا کوئی ذریعہ ہو تا تو اتنے مختلف اور متضاد عقیدے پیدا نہ کر تا۔‘‘ (تفہیم :ص۱۳۵ج۵) یہ اختلاف انسان اور دنیا کے انجام کے بارے میں ہی نہیں، دنیا میں زندگی گزارنے اور اس کے طریقۂ کار میں بھی اختلاف ہے۔ اگر کوئی نظام سرمایا داری کا قائل ہے تو کوئی سو شلزم کا دم بھر تا ہے۔ کوئی جمہوریت کا نام لیواہے تو کوئی ڈکٹیٹر شپ کا خواہاں ہے۔ کوئی وطن پرستی کا داعی ہے تو کوئی قوم اور رنگ ونسل کا گرویدہ ہے۔ گویا یہ سب امر مریج اور قول مختلف کا شکار ہیں۔ اور کل حزب بما لدیھم فرحون کا مصداق ہیں۔مگر ایک مومن صادق اور وحی ورسالت کو صحیح معنوں میں تسلیم کرنے والا ایمان ویقین کی زندگی گزارتا ہے۔ اس کے معتقدات میں تردد اورتعدد کا کوئی تصور نہیں ہے۔ وہ ایک ہی صراطِ مستقیم کو اختیار کرتا ہے۔ اور اسی پرگامزن رہتا ہے۔ |