﴿إِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ عَنِ الْیَمِیْنِ وَعَنِ الشِّمَالِ قَعِیْدٌo مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ إِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ﴾ (۱۷، ۱۸) ’’(خیال رکھو) جب دو اخذ کرنے والے اخذ کرتے رہتے ہیں، ایک اس کے دائیں بیٹھا ہے اور دوسرا بائیں بیٹھا ہے وہ کوئی لفظ بھی نہیں بولتا ،مگر اس کے پاس مستعد نگران موجود ہوتا ہے۔‘‘ یہ آیات پہلی آیت کا ہی تتمہ ہیں،کہ اللہ تعالیٰ انسان کی تمام حرکات وسکنات کو جانتے ہیں،کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ چیز بھی اس کے علم سے خارج نہیں،اس کے علاوہ اتمامِ حجت کے لیے اللہ تعالیٰ کے دو فرشتے بھی انسان پر نگران مقر ر ہیں، انسان جو لفظ بولتا ہے وہ اس کو لکھ لیتے ہیں۔ اس کا بول ہی نہیں ،بلکہ ہاتھ پاؤں سے کیے ہوئے تمام اعمال کو بھی وہ نوٹ کرتے ہیں۔ سورۃ الزخرف میں یہی بات یوں ہے: ﴿أَمْ یَحْسَبُوْنَ أَنَّا لَا نَسْمَعُ سِرَّہُمْ وَنَجْوَاہُم بَلیٰ وَرُسُلُنَا لَدَیْہِمْ یَکْتُبُوْنَ ﴾ (الزخرف:۸۰) ’’کیا وہ یہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کی راز کی باتیں اور ان کی سرگوشیاں سنتے نہیں؟ ہاں! ہم سب کچھ سنتے ہیں اور ہمارے فرشتے ان کے پاس لکھ رہے ہیں۔‘‘ یہاں پہلی آیت نمبر سولہ(۱۶) میں اللہ تعالیٰ کے علم کا بیان ہے اور اس کے بعد کی آیات میں فرشتوں کے نوشتوں کا تذکرہ ہے۔﴿إِذْ یَتَلَقَّی الْمُتَلَقِّیَانِ ﴾ تلقّی کے معنی اخذ کرنے، لینے ،حاصل کرنے کے ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کے بارے میں ہے:﴿فَتَلَقّٰی آدَمُ مِنْ رَّبِّہٖ کَلِمَاتٍ﴾ آدم علیہ السلام نے اپنے رب سے چند کلمات حاصل کر لیے۔ اور ﴿المُتَلَقِّیَانِ﴾ سے دو لینے اور اخذ کرنے والے فرشتے مراد ہیں،جو انسان کے دائیں |