’’میرا بندہ جس چیز سے میرا تقرب ڈھونڈتا ہے ان میں سب سے زیادہ میرے نزدیک محبوب وہ عمل ہے جسے میں نے اس پر فرض قرار دیا ہے ،اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل پڑھ کر میرا تقرب حاصل کرتا ہے تاآنکہ میں اس سے محبت کرتا ہوں۔‘‘ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جواللہ کے ایک بالشت قریب ہوتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے دو بالشت قریب ہوتے ہیں۔ یہاں ایک ذات کا دوسری ذات سے قربِ ذاتی اور مکانی مراد نہیں جیسا کہ بعض مبتدعین کا خیال ہے، بلکہ یہاں اللہ تعالیٰ اور اس کے بندہ کے مابین ایک اتصال وتعلق مراد ہے اور یہ ربط وتعلق بندہ کی اطاعت وانابت سے ظاہر ہوتا ہے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ کا اپنے بندے سے قرب واتصال کا اظہار دعا کی قبولیت،اعانت ونصرت اور توفیق علی الطاعات سے ہوتا ہے، اور اسی قرب کی ضد اللہ سے بُعد،دوری اور انفصال ہے اور مومن کے مقابلے میں یہ’’بُعد ‘‘ کافروں اور منافقوں کے حصہ میں آیا ہے۔ مومن کے لیے’’قرب‘‘ حیاتِ جاودانی کا باعث ہے جبکہ کافرکے لیے ’’بعد ‘‘عذابِ الہٰی اور جہنم کا سبب ہے۔ أعاذ نا اللہ منہ۔ یہاں یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی صفت تو’’علو‘‘ ہے، اور اللہ تعالیٰ مستوی عرش ہیں تو یہ ’’قرب‘‘ کیسا ؟ اور کیا یہ صفتِ ’’علو‘‘ کے منافی نہیں؟ بالکل نہیں، ’’قرب ‘‘اگر’’علو‘‘ کے تقابل میں بھی ہو تب بھی یہ اعتراض درست نہیں ،کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی صفات میں بے مثال ہیں اور اپنی صفتِ’’علو‘‘ کے ساتھ ساتھ’’قریب‘‘بھی ہیں۔ کسی انسان میں تو یہ دونوں صفتیں باہم متناقض ہیں ،مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنی دوسری صفات کی طرح صفتِ قریب میں بھی بے مثال ہے۔ جس طرح صفتِ’’علو‘‘ اور صفت استوی علیٰ العرش سے متصف ہونے کے باوصف سمیع وبصیر ہیں اسی طرح وہ اپنی علوِ شان کے ساتھ ساتھ قریب بھی ہیں۔ مگر جب’’قرب‘‘ سے مراد اللہ تعالیٰ کا علم وقدرت ہے تو پھر یہ اشکال ہی ختم ہو جاتا ہے۔ |