تھے جیسے کھجور کے تنے گرے پڑے ہوتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس قوم کا ذکر مختلف مقامات پر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو:سورۃ الأعراف ، ھود، الفرقان، الشعراء، العنکبوت، حم السجدۃ، الأحقاف، الذاریات، النجم، القمر، الحاقۃ، الفجر، قوم عاد کا زمانہ ۲۲۰۰ ق م شمار کیا گیا ہے۔ اور بعض ۳۰۰۰ ق م ذکر کرتے ہیں۔ فرعون یہاں قومِ عاد وثمود، اصحاب الرس اور قومِ نوح کی طرح فرعون کی قوم کا نہیں ،بلکہ فرعون کا ذکر ہے کیونکہ اصل مجرم اور سر غنے کی حیثیت فرعون ہی کی تھی، اسی کے بارے میں ذکر ہے: ﴿وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَہُ وَمَا ہَدٰی﴾(طٰہٰ :۷۹)’’فرعون نے اپنی قوم کو گمراہ کیا، اس نے کوئی صحیح راہنمائی نہیں کی تھی۔ ‘‘اس کی سرکشی اس حدتک پہنچی ہوئی تھی کہ وہ کہتا تھا:﴿أَنَا رَبُّکُمُ الْأَعْلَیٰ﴾ (النازعات:۲۴) ’’میں تمھارا سب سے بڑا پروردِگار ہوں۔‘‘ مجھ سے بڑا کون ہے؟ جس کے بارے میں موسی علیہ السلام دعوی کرتے ہیں کہ میں اس کا رسول ہوں، وہ غرور وتکبر میں کہتا تھا: ﴿یَا قَوْمِ أَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَہَذِہٖ الْأَنْہَارُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ أَفَلََا تُبْصِرُوْنَ ﴾(الزخرف:۵۱) ’’اے میری قوم! کیا مصر کا بادشاہ میں نہیں، اور یہ نہریں میرے زیرِ اثر نہیں چل رہیں، کیا تمھیں یہ نظر نہیں آتا ؟‘‘ اس لیے اصل مجرم وہی تھا، بلکہ اس کا نام لے کر اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرمایا: ﴿اِذْہَبْ إِلیٰ فِرْعَوْنَ إِنَّہٗ طَغیٰ﴾(طہ :۲۴،النازعات:۱۷) ’’فرعون کے پاس جاؤ بے شک وہ سر کش ہو گیا ہے۔‘‘ موسیٰ علیہ السلام نے اسے ڈرایا، سمجھا یا مگر وہ کبروعناد میں اندھاہو گیا، بالآخر وہ انھی نہروں میں سے ایک نہر میں مع اپنے حواریوں کے غرق کر دیا گیا ،جن کے بارے میں اس کا دعوی تھا کہ یہ میرے حکم سے چلتی ہیں۔ فرعون کا ذکر قرآنِ مجید میں حسبِ ذیل ستائیس |