﴿وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذٰلِکَ مَاکُنْتَ مِنْہٗ تَحِیْدُ﴾(۱۹) ’’اور موت کی بے ہوشی حق لے کر پہنچ گئی ،یہ وہی ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔‘‘ ﴿سَکْرَۃُ ﴾ ’’السُکر‘‘ سے ہے ،یہ اس حالت کو کہتے ہیں جو انسان اور اس کی عقل کے درمیان حائل ہوجاتی ہے، اور اس کا عمومی اطلاق نشہ آور چیز کی بد مستی ومدہوشی پر ہوتا ہے اور اسی سیسَکْرَاتُ الْمَوْتِ موت کی بے ہوشیاں،اس مدہوشی اور غشی کا سبب ہے موت کے وقت دم گھٹنا ،پیاس کی شدت، اختلالِ دل ودماغ ،کمزوری وبے بسی اور اگر کافر ہو تو ساتھ ڈراؤنی شکل میں فرشتوں کو دیکھنا، ان کا مارنا ،ڈانٹنا ،ان میں تو ہر ایک چیز غشی کا باعث ہے، مگر میت ہے جو بیک وقت ان سے دوچار ہوتی ہے۔حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پر جب موت کے آثار نمودار ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلایا ،وہ آئیں تو بے ساختہ زبان سے یہ شعر نکلا۔ إذَا حَشْرَجَتْ یَوْماً وَضَاقَ بِھَا الصَّدْرٗ ’’یعنی جب ایک دن روح مضطرب ہوگی اور سینہ اس سے تنگ ہو جائے گا۔‘‘ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سنتے ہی فرمایا: تم نے یہ فضول شعر کہا ۔یوں کہو ﴿وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہٗ تَحِیْدُ﴾ ۔یہ بھی منقول ہے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ پر انتقال کے وقت جب غشی طاری ہوئی تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ شعر کہا: مَنْ لَا یَزَالُ دَمْعُہٗ مُقْنِعاً فَإنَّہٗ لَا بُدَّ مَرَّۃً مَدْفُوْقٗ ’’جس کے آنسو ہمیشہ رُکے رہے ایک بار تو ضرور وہ بہہ نکلیں گے۔‘‘ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے سراٹھایا اور فرمایا یوں نہ کہو، بلکہ کہو:﴿وَجَآئَ تْ سَکْرَۃُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّ ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہُ تَحِیْدُ﴾ حافظ ابنِ کثیر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ |