واقعہ متعدد طرق سے منقول ہے، جنھیں میں نے’’سیرۃ الصدیق‘‘ میں جمع کر دیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں صحیح بخاری وغیرہ میں ہے کہ جب آپ پر آخری وقت آیا تو آپ پانی میں ہاتھ ڈال کر چہرۂ انور پر ملتے اور فرماتے تھے لَا إِلٰہَ اِلَّا اللَّہُ إِنَّ لِلْمَوْتِ سَکَرَاتٍ(بخاری :۴۱۴۹) موت کی غشی اور جان کنی کے بارے میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ہی فرمان ہے کہ لَا أکْرَہٗ شِدَّۃَ الْمَوْتِ لِأَحَدٍ أَبَداً بَعدَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی پر موت کی سختی کو ناگوار نہیں جانتی ۔(بخاری:۴۴۴۶) حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ سے پوچھا موت کے بارے میں بتلاؤ،انھوں نے فرمایا: امیر المؤمنین اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک بہت کانٹے دار پودا انسان کے پیٹ میں پیوست ہو جاتا ہے اور اس کی ہر رگ اور جوڑ میں کانٹے ہیں اور طاقت ور انسان ان سے اپنے آپ کو بچاتا اور کھینچتا ہے۔(ابن ابی شیبہ وغیرہ) حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے ایک طویل روایت مسند امام احمدوغیرہ میں مروی ہے، جس میں احوالِ میت وبرزخ کا بیان ہے، اس روایت میں کافر کی قبضِ روح کے بارے میں ہے کہ سیاہ رو فرشتے اپنے ساتھ ٹاٹ لیے ہوئے جہاں تک نظر جا سکتی ہے، اتنی دور سے میت کو گھیر لیتے ہیں۔ اس کے بعد ملک الموت آتے ہیں اور اس کے سرہانے بیٹھ کر کہتے ہیں اے خبیث روح! نکلواللہ کے غضب کی طرف، یہ سن کر جان بدن میں چھپ جاتی ہے، اس وقت وہ جان کو اتنی شدت سے نکالتے ہیں جس طرح آہنی سیخ ترکپڑے سے کھینچی جاتی ہے، وہ اس کی روح نکالتا ہے اور دوسرے فرشتے پلک جھپکنے میں اسے لے لیتے ہیں اور اس روح سے مردار کی سی بو آتی ہے۔ (مسند احمد:ص۲۸۸ج۴ وغیرہ) قرآنِ مجید میں بھی ہے کہ کاش تم ظالموں کو موت کی بے ہوشی میں دیکھو، فرشتے ہاتھ پھیلا پھیلا کر کہتے ہیں:اپنی جانیں نکالو اب تمھیں ذلت آمیز سزا دی جائے گی۔ (الانعام:۹۳) اس حال میں فرشتے انھیں ماریں گے بھی، چنانچہ فرمایا: ﴿فَکَیْفَ إِذَا تَوَفَّتْہُمْ الْمَلَائِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وُجُوہَہُمْ وَأَدْبَارَہُمْ ﴾( محمد :۲۷)’’ان کا کیا حال ہو گا جب فرشتے ان کی روح نکال رہے ہوں گے اور ان کے چہروں اور پیٹھوں پر مارتے |