ہوں گے۔‘‘ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ جب سے انسان پیدا ہوتا ہے تب سے لیکر اس کے لیے موت سے زیادہ سخت اور کوئی چیز نہیں پھر اس کے بعد انسان سے جو معاملات ہونے والے ہیں، ان کے مقابلے میں موت بہت ہلکی ہے۔‘‘ (مسند احمد:۱۵۴ج۳ ورجالہ موثقون المجمع:ص۳۱۹ج۲) موت کی یہ تنگی وبے ہوشی’’الحق‘‘ کو لیکر آئی۔ ’’الحق‘‘ سے مراد یہاں قیامت ہے۔ یعنی موت،قیامت کا پیغام لے کر آئی، موت کے آغاز ہی میں وہ چیز یں سامنے آجاتی ہیں جو حق وسچ ہیں۔ ایک ضعیف حدیث میں ہے: مَنْ مَّاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُہٗ جو موت کے منہ میں آگیا اس کی قیامت آگئی ۔(المقاصد:۴۲۸) مرنے والا فرشتوں کو دیکھ لیتا ہے وہ جس شکل وصورت میں آتے ہیں مرنے والا اسی سے اپنے انجام کا اندازہ لگا لیتا ہے کہ وہ اہلِ سعادت میں سے ہے یا اہلِ شقاوت میں سے، موت کے بعد برزخ کی زندگی قیامت کی تمہید ہے اور اس کے ساتھ ہی عالمِ آخرت کے احوال کا آغاز ہو جاتا ہے۔ سورۃ القیامۃ میں ہے: ﴿کَلَّا إِذَا بَلَغَتِ التَّرَاقِیَo وَقِیْلَ مَنْ رَاقٍo وَّظَنَّ أَنَّہٗ الْفِرَاقُo وَالْتَفَّتِ السَّاقُ بِالسَّاقِo إِلیٰ رَبِّکَ یَوْمَئِذٍ نِ الْمَسَاقُo﴾ (القیامۃ:۲۶۔۳۰) ’’ہرگز نہیں ،جب جان حلق تک پہنچ جائے گی، اور کہا جائے گا کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا اور آدمی سمجھ لے گا کہ یہ دنیا سے جدائی کا وقت ہے، اور پنڈلی سے پنڈلی جڑ جائے گی ،وہ دن تیرے رب کی طرف روانی کا ہو گا۔‘‘ اس صورت حال سے تمھاری آنکھیں کھل جائیں گی اور پتہ چل جائے گا کہ وقتِ موعود آپہنچا ہے۔ یا﴿بِالْحَقِّ ﴾سے مراد یہاں موت ہے، جس کا آنابہرنوع حق ہے ،یا یہاں ﴿بِالْحَقِّ ﴾سے حقیقت یا برحق مراد ہے جو عبث کی ضد ہے، جیسے فرمایا:﴿خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْأَرْضَ بِالْحَقِّ ﴾ (التغابن:۳) کہ آسمانوں اور زمین کو برحق بنایا۔ یعنی موت کی مدہوشی حقیقتاً |