﴿لَہُمْ مَّا یَشَآؤُنَ فِیْہَا وَلَدَیْنَا مَزِیْدٌ﴾(۳۵) ’’ان کے لیے ہو گا جو وہ چاہیں گے ، اور ہمارے پاس مزید بھی ہے۔‘‘ جنت کی یہ دائمی زندگی ایسی ہو گی جس میں جنتیوں کو وہ سب کچھ ملے گا جو وہ چاہیں گے، جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : ﴿وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَشْتَہِیْ أَنفُسُکُمْ وَلَکُمْ فِیْہَا مَا تَدَّعُوْنَ ﴾ (حٰمٓ السجدۃ:۳۱) ’’اور تمھارے لیے اس جنت میں ہر وہ چیز ہے جو تمھارا دل چاہے گا، اور تمھارے لیے اس میں ہر وہ چیز ہے جو تم طلب کروگے۔‘‘ دنیا میں بندہ کو جو کچھ ملتا ہے وہ اللہ کی مشیت پر ملتا ہے اور ہر طلب پر مطلوب حاصل نہیں ہوتاہے، رزق، صحت ،شفا ، مال ودولت، اولاد ،فتح ونصرت، ملک وحکمرانی ، عزت وتکریم غرض یہ کہ دنیا میں یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے۔ وہ چاہے دے ،چاہے نہ دے، بندے کے چاہنے پر کچھ موقوف نہیں، ﴿وَمَا تَشَآؤُنَ إِلَّا أَنْ یَّشَآئَ اللَّہُ رَبُّ الْعَالَمِیْنَ ﴾(التکویر:۲۹)’’تمھارے چاہنے سے کچھ نہیں ہوتا جب تک اللہ رب العالمین نہ چاہے۔‘‘ لیکن جنت میں جنتی کے چاہنے اور اس چیز کے واقع ہو جانے میں اللہ تعالیٰ کی مشیت حائل نہیں ہو گی، جو چاہیں گے ملے گا جو مطالبہ ہو گا پورا کیا جائے گا۔ دنیا میں بندۂ مومن نے اپنی چاہتوں پر عمل نہیں کیا بلکہ ہر معاملے میں اللہ کی چاہت اور حکم کو مقدم جانا، اسی کا نتیجہ ہے اب جنت میں اس کی چاہتوں میں کچھ حائل نہ ہو گا۔ برعکس جہنمی کے کہ اس نے اپنی چاہتو ں پر عمل کیا اور اپنے نفس کا بندہ بنا رہا، اس کی اس آوار گی کا قیامت کو یہ نتیجہ نکلا کہ اس کی ہرخواہش اس کی آہ وبکا، اس کی چیخ وپکار بے کار، بلکہ اس کا بول بھی ناگوار، ﴿قَالَ اخْسَؤُوْا فِیْہَا وَلَا تُکَلِّمُوْنِ ﴾ (المؤمنون:۱۰۸) ’’دور ہو جاؤ میرے سامنے سے اسی میں پڑے رہو اور مجھ سے بات نہ کرو۔‘‘ |