مگر یہ اہلِ جنت کی شا ن ہے کہ ان کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ وہ جو چاہیں گے حاضر پائیں گے، اور یوں نہیں کہ جتنا وہ چاہیں گے بس اتنا ہی دیں گے،بلکہ ان کی طلب جتنی بھی ہو بحرِ کرم کا دامن تو اس سے کہیں وسیع تر ہے۔ اس لیے جو مانگیں گے وہ بھی ملے گا اس کے علاوہ ﴿وَلَدَیْنَا مَزَیْدٌ﴾ہمارے پاس اور بھی بہت کچھ ہے جو ہم انھیں دیں گے،’’مزید‘‘ کے بارے میں انھیں علم ہی نہیں اس لیے اس کی طلب کیسے؟ ﴿فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَّا أُخْفِیَ لَہُمْ مِّنْ قُرَّۃِ أَعْیُنٍ ﴾( السجدۃ:۱۷)’’کوئی بھی نہیں جانتا کہ ان کی آنکھوں کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ہم نے کیا کچھ چھپا رکھا ہے۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے کہ أَعْدَدْتُّ لِعِبَادِیَ الصَّالِحِیْنَ مَالََا عَیْنٌ رَأَتْ وَلََا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلََا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرٍ( بخاری :۳۲۴۴ مسلم ۷۱۳۲) ’’میں نے اپنے نیک بندوں کے لیے وہ کچھ تیار کر رکھا ہے جسے نہ کبھی کسی آنکھ نے دیکھا ہے، نہ کبھی کسی کان نے ان کے بارے میں سنا ہے ،نہ ہی کبھی کسی انسان کے دل میں ان کا تصور آیا ہے۔‘‘ یہی روایت دیگر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے بھی مروی ہے۔جب دنیا میں جنت کی بہاروں کا تصور کسی کے حاشیۂ خیال میں نہیں آیا تو اس کے انعام واکرام کا اندازہ کیوں کر ہو سکتا ہے؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ’’مزید‘‘ سے مراد اہلِ جنت کے لیے جمعہ کے روز اللہ تعالیٰ کی زیارت ہے۔قرآنِ مجیدمیں ایک اور مقام پر ہے:﴿لِّلَّذِیْنَ أَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی وَزِیَادَۃٌ ﴾ (یونس:۲۶) ’’جنھوں نے اس دنیا میں بھلائی کی ،ان کو بھلائی کے عوض جو ملے گا سو ملے گا میری طرف سے اس سے زیادہ بھی ملے گا۔‘‘اس ’’زیادۃ‘‘ سے مراد بھی دیدارِ الہٰی ہے۔ اوراہلِ سنت کا اتفاق ہے جنت میں اہلِ جنت دیدارِ الہٰی سے مشرف ہوں گے، اس بارے میں متعدد احادیث، کتب احادیث وتفاسیر میں منقول ہیں۔ حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے النھایہ(ص ۲۹۸۔۳۰۸ ج۲) علامہ المنذری رحمہ اللہ نے الترغیب والترہیب (ص ۵۵۱،۵۵۷ج۴) اور علامہ السیوطی رحمہ اللہ نے الدرالمنثور (ص ۲۹۰،۲۹۵ج۶) میں انھیں ذکر کیاہے ۔ |