حقیقت یہ ہے کہ جنت ،محلِ دیدارِ محبوب ہے۔ جس محبوب کی محبت میں اس کے بندے آہیں بھرتے ہیں، راتیں قیام ، رکوع اورسجود میں گزرتی ہیں۔ مال حتی کہ جان کی قربانی میں وہ اپنی کامیابی سمجھتے ہیں،جنت میں سب کچھ مل جانے کے بعد اگر محبوب سے ملاقات نہیں تو جنت کیسی ؟ کسی نے کیا خوب کہا۔ مَا طَابَتِ الدُّنْیَا إِلَّابِذِکْرِہٖ، وَمَا طَابَتُ الْآخِرََۃِ إِلَّابِعَفْوِہٖ وَمَا طَابَتِ الْجَنَّۃُ إِلَّا بِرُؤْیَتِہٖ ۔( جامع العلوم والحکم: ۳۸۹) ’’دنیا کی کوئی لذت اور خوشی نہیں اگراللہ کا ذکر نہیں، آخرت میں کوئی خوشی اور لذت نہیں اگر عفو اور معافی نہیں، اور جنت کی کوئی عیش ولذت نہیں اگر اللہ کا دیدار نہیں۔‘‘ ان آیات میں عجیب مطابقت ہے پہلے اہلِ جنت کی تکریم میں قربِ جنت کا ذکر ہے۔ پھر اہلِ جنت کے حسنِ عمل کی تعریف ہے کہ یہ ان اوصاف سے متصف تھے۔ تبھی جنت کے مستحق قرار پائے۔ پھر مزید اکراماً جنت میں ہمیشہ رہنے کی بشارت کے ساتھ سلامتی سے داخل ہونے کا ذکر اور آخرت میں حسبِ منشاعنایتوں کے علاوہ مزید نواز شوں سے نوازنے کی بشارت،جن کا تصور اہلِ جنت کے حاشیۂ خیال میں بھی نہیں ہوگا۔اللہ اکبر، وسبحان اللہ ۔ حضرت ابو سعید رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ اہلِ جنت سے فرمائے گا :اے جنت والو! کیا تم راضی ہو گئے؟ وہ عرض کریں گے ہم کیوں راضی نہ ہوں جبکہ آپ نے ہمیں وہ نعمتیں عطا کی ہیں جو اپنی مخلوق میں سے کسی کو نہیں دیں۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں تم کو اس سے بھی افضل چیز عطا کروں گا، وہ عرض کریں گے اے ہمارے رب! ان نعمتوں سے افضل اور کون سی نعمت ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: میں نے اپنی رضا تم پر حلال کر دی، آج کے بعد میں تم پر کبھی ناراض نہیں ہوں گا۔( بخاری:۶۵۴۹، مسلم: ۲۸۲۹ وغیرہ) یہ جنتیوں پر ایک بڑا انعام ہے۔ غور فرمائیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بارے میں تو دنیاہی میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا میں تم پر راضی ہوں، بدریوں کے بارے میں فرمایا:جو چاہو کرو میں نے تمھیں معاف کر دیا۔(بخاری:۳۹۸۳ )سبحان اللہ۔ |