Maktaba Wahhabi

110 - 190
آپہنچی۔قیامت ،حساب کتاب اور جنت وجہنم کی جو باتیں سنتے تھے ان کی صداقت ظاہر ہو گئی، اور اس سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ دنیا دارِ فانی ہے دارالخلد نہیں۔ ہمیشہ کی زندگی تو آخرت کی ہے۔ ﴿ذٰلِکَ مَا کُنْتَ مِنْہٗ تَحِیْدُ ﴾’’ یہ ہے جس سے تو بھاگتا اور کنی کتراتا تھا۔‘‘ ﴿تَحِیْد﴾کے معنی پہلو تہی کرنے ،کنی کترانے ،بچنے اور بھاگنے کے ہیں۔ انسان اس سے بچاؤ کا ہر حیلہ اختیار کرتا ہے حتی کہ اپنے لیے دوسرے انسانوں کو ڈھال بناتا ہے اور ہر اس چیز سے گریز کرتا ہے جو موت کا باعث ہو، مگر موت ہے کہ اس کا پیچھا نہیں چھوڑتی اور ہر طرح کے بچ بچاؤ کے باوجود وقت مقرر پر آدھمکتی ہے۔موت سے ہر شخص الا ماشاء اللہ بچنے کی تدبیر کرتا ہے اور یہ بچنا ممنوع بھی نہیں،مگر یہاں مقصود یہ ہے کہ موت سے بچنے کی کوشش کے باوجود یہ ایک نہ ایک دن آکے رہے گی، اس سے بچنے کی ساری تدبیر یں دھری کی دھری رہ جائیں گی اور انسان موت کے منہ میں چلا جائے گا ۔ارشاد فرمایا: ﴿أَیْنَمَا تَکُوْنُوْا یُدْرِکْکُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ کُنْتُمْ فِیْ بُرُوْجٍ مُّشَیَّدَۃٍ﴾ (النساء:۷۸) ’’تم جہاں کہیں بھی ہو گے موت تم تک پہنچ جائے گی اگر چہ تم مضبوط قلعوں اور محلوں میں رہو‘‘ اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا کوئی بڑے سے بڑا ملحدومعاند بھی انکار نہیں کر سکا اور نہ ہی کوئی اس سے انکار کرتا ہے۔ ہر روز انسان اس کا مشاہدہ اپنی آنکھوں سے کرتا ہے اس لیے انکار کیسے اور کیونکر؟ رہ گیا موت کے بعد کے انجام اور قیامت کا انکار، تو مرنے والا مرتے دم اس کو اپنی آنکھ سے دیکھ لیتا ہے، مگر اس وقت ایمان وایقان کی مہلت کا وقت ختم ہو چکا ہوتا ہے۔ اس آیت میں تمام انسان مخاطب ہیں۔ مگر اولاً مقصود یہاں مشرکین ویہودتھے کیونکہ وہی دراصل موت سے زیادہ گھبراتے اور زندگی کے طلب گار تھے،جیسا کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿وَلَتَجِدَنَّہُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلیٰ حَیَاۃٍ وَمِنَ الَّذِیْنَ أَشْرَکُوْا یَوَدُّ أَحَدُہُمْ لَوْ یُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَۃٍ ﴾ (البقرۃ: ۹۶) ’’آپ ان کو ضرور پائیں گے تمام لوگوں سے بڑھ کر حرص کرنے والے
Flag Counter