دنیا کی زندگی پر، اور ان سے بھی جو شرک کرتے ہیں، آرزو کرتاہے ہر ایک ان میں سے کہ کاش وہ عمردیا جائے ہزار سال۔ ‘‘ اور یہود کے بارے میں فرمایا: ﴿قُلْ إِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہٗ فَإِنَّہُ مُلَاقِیْکُمْ ﴾ (الجمعۃ :۸) ’’فرما دیجئے کہ جس موت سے تم بچتے ہو وہ تمھیں ملنے ہی والی ہے۔‘‘ ان کا یہ فرار اس لیے تھا کہ وہ اسی دنیا کو ہی سب کچھ سمجھتے تھے اور جو کچھ وہ یہاں اپنے ہاتھ سے بو رہے تھے اس سے بھی وہ آگاہ تھے اس لیے ان کی تمنا یہی تھی کہ یہاں دیر تک زندہ رہیں۔یہاں گو مخاطب یہود ومشرکین تھے، مگر آیات اپنے عموم کے اعتبار سے تمام کفار کو شامل ہیں۔ ان کے برعکس بندۂ مومن میں موت کا طبعی خوف اور ڈر ہوتا ہے جس کی بنا پر وہ اس سے بچا ؤکی کوشش کرتا ہے،مگر اس میں جزع وفزع کی کیفیت نہیں ہوتی،بلکہ ایمان وعمل صالح کی بنا پراللہ کی رحمت کا امیدوار اور دیدارِ الہٰی کا مشتاق ہوتا ہے۔ زندگی کا طلبگار ہوتا ہے تو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے کچھ اور کام کر سکوں اور اگر ایمان وعمل میں خلل کا خطرہ محسوس کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ سے خاتمۂ خیر کی تمنا کرتا ہے۔ اور پکار اٹھتا ہے۔ ﴿تَوَفَّنِیْ مُسْلِماً وَّالْحِقْنِیْ بِالصّٰلِحِیْنَ﴾’’مجھے مسلمانی میں موت دے اور صالحین کے ساتھ ملا دے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بارے میں حضرت معاذ ؓ بن جبل بڑی جامع دعا بیان کرتے ہیں: اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئالُکَ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَتَرْکَ الْمُنْکَرَاتِ وَحُبَّ الْمَسَاکِیْنِ وَاَنْ تَغْفِرَلِیْ وَتَرْحَمَنِیْ وَاِذَا اَرَدْتَّ فِتْنَۃً فِیْ قَوْمٍ فَتَوَفَّنِیْ غَیْرَ مَفْتُوْنٍ ۔(ترمذی :رقم۳۲۳۵فی تفسیر سورۃ صٓ،مسند احمد:ص۲۴۳ج۵) ’’اے اللہ میں آپ سے اچھے کام کرنے اور برے کام چھوڑدینے اور مسکینوں سے محبت کرنے کی توفیق طلب کرتا ہوں، اور مجھے معاف فرمادیجئے اور مجھ پر رحم فرمائیے، اور آپ جب قوم کو کسی آزمائش میں مبتلا کرنے کا فیصلہ فرمائیں تو فتنہ سے بچا کر مجھے اپنے پاس بلا لیجئے۔‘‘ |