Maktaba Wahhabi

94 - 190
درمیان چوتھا اللہ نہ ہو، یا پانچ آدمیوں میں سرگوشی ہو اور ان میں سے چھٹا اللہ نہ ہو،خفیہ بات کرنے والے خواہ اس سے کم ہوں یا زیادہ ، جہاں بھی وہ ہوں اللہ ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ پھر قیامت کے دن ان کو بتادے گا کہ انھوں نے کیا کچھ کیا ہے۔اللہ ہر چیز کاعلم رکھتا ہے۔‘‘ ’’قرب‘‘ کی طرح ان آیات میں’’معیت بھی ‘‘اللہ ذوالجلال والاکرام کے علم اور قادرِ مطلق ہونے کے اعتبار سے ہے۔ سلف رحمہم اللہ ان آیات کا یہی مفہوم لیتے ہیں، یوں نہیں کہ سرگوشی کی محفل میں آدمیوں کے درمیان اللہ سبحانہ وتعالیٰ بھی ایک شخص اور ذات کے لحاظ سے موجود ہوتے ہیں۔ پہلی آیت میں تواس کا واضح اشارہ بھی ہے کہ انسان اگر اپنی کرتوتیں بھول جاتا ہے تو اپنی اس کمزوری کی بنا پر محاسبہ کا انکار کوئی عقلمندی نہیں، انسان کو اگر یہ یاد نہیں تو پیدا کرنے والے کو تو یہ سب یاد ہے اور وہی سب سے حساب لے گا کوئی چیز اس کی قدرت سے خارج نہیں ہے۔اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے ’’قرب‘‘ اور ’’معیت‘‘ کے مفہوم کی تفصیل شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی شرحِ حدیثِ نزول اور سید بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ کی توحیدِ خالص ملاحظہ فرمائیں۔ یہ ’’قرب‘‘و ’’معیت‘‘ تو ہر انسان کے لیے، مگر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کا ایک’’قرب‘‘ وہ ہے جو اس کے بندوں کے لیے علی حسب المراتب خاص ہے۔ اور اس’’قرب‘‘ کے حصول کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے :چنانچہ ارشاد ہے۔ ﴿وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ ﴾(العلق:۱۹ )’’سجدہ کرو اور ہمارے قریب ہو جاؤ۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: أَقْرَبُ مَایَکُوْنُ الْعَبْدُ مِنْ رَبِّہٖ وَھُوَسَاجِدٌ۔ (مسلم :رقم ۱۰۸۳وغیرہ) ’’بندہ اپنے رب کے سب سے زیادہ قریب تب ہوتا ہے جب سجدہ کرتا ہے۔ ‘‘ قیام اللیل بھی اللہ کے قرب کا ذریعہ ہے۔(ترمذی:رقم ۳۵۷۹وغیرہ)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مَاتَقَرَّبَ إِلیَّ عَبْدِیْ بِشَیْئٍ أَحَبُّ إِلَیَّ مِمَّا افْتَرَضْتُہٗ عَلَیْہِ، وَلََا یَزَالُ عَبْدِیْ یَتَقَرَّبُ إِلیَّ بِالنَّوَافِلِ حَتّٰی أُحِبَّہٗ، الحدیث۔(بخاری: رقم۶۵۰۲)
Flag Counter