چل نکلے تو کیا ان کو موت سے بچنے کے لیے پناہ گاہ مل گئی؟!‘‘ قوموں کی تباہی اور ان کے زوال کی تاریخ یہ بتلاتی ہے کہ جب ان پراللہ کاعذاب آتا تو جو اس عذاب سے بچ جاتے وہ اِدھر اُدھر جان بچانے کے لیے وہاں سے نکل پڑتے تھے۔ ایک دوسرا مفہوم جسے امام قتادہ رحمہ اللہ وغیرہ نے اختیار کیا ہے کہ ’’نقب فی الأرض‘‘ کے معنی یہ ہیں کہ وہ شہروں میں رزق اور کارو بار کی تلاش میں نکلے ، اور تم سے زیادہ وہ شہروں میں گھومے پھرے اور ان شہروں میں انھوں نے اپنے آثار چھوڑے، کیا وہ اللہ کے فیصلے سے بچ سکے اور انکا یہ جاہ وجلال انھیں اللہ کے عذاب سے بچا سکا؟ تم سے ہر لحاظ سے زیادہ شان وشوکت رکھنے والے جب ہماری گرفت سے بچ نہیں پائے تو تمھاری ان کے مقابلے میں حیثیت ہی کیا ہے، امام ابن کثیر رحمہ اللہ نے اسی مفہوم کو اختیار کیا ہے۔ قرآنِ مجید ہی میں ہے۔ ﴿أَوَلَمْ یَسِیْرُوْا فِی الْأَرْضِ فَیَنْظُرُوْا کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ کَانُوْا أَشَدَّ مِنْہُمْ قُوَّۃً وَّأَثَارُوْا الْأَرْضَ وَعَمَرُوْہَا أَکْثَرَ مِمَّا عَمَرُوْہَا﴾( الروم:۹) ’’کیا یہ لوگ زمین میں کبھی چلے پھرے نہیں ہیں کہ انھیں ان لوگوں کا انجام نظر آتا جو ان سے پہلے گزر چکے ہیں، وہ ان سے زیادہ طاقت رکھتے تھے، اُنھوں نے زمین کو خوب ادھیڑا تھا اور اسے اتنا آباد کیا تھا جتنا اِنھوں نے نہیں کیا۔‘‘ ﴿أَثَارُوْا الْأَرْضَ ﴾سے مراد زمین کا ادھیڑنا اور پھاڑنا ہے جس میں ہل چلا نا اور زمین کھود کر نہریں اور معدنیات نکالنا اور پہاڑ کھود کر گھر بنانا سب شامل ہیں، تعمیر وترقی اس پر مستزاد ہے۔ جب وہ اپنی اس قدر شان وشوکت ،قوت وطاقت کے باوجوداللہ کے عذاب سے بچ نہیں سکے تو تمھاری ان کے مقابلے میں حیثیت ہی کیا ہے؟ یہی مفہوم قرآن مجید میں کئی مقام پر بیان ہوا ہے، ملاحظہ ہو: القصص(۷۸) فاطر(۴۴) غافر(۲۱،۸۳) علیہ السلام (۱۳)۔ ایک اور مفہوم یہ ہے کہ﴿فَنَقَّبُوْا فِیْ الْبِلَادِ ﴾سے مراد یہ ہے وہ اپنی شوکت |