Maktaba Wahhabi

175 - 190
وسطوت کی بنا پر دوسرے شہروں میں دندناتے ہوئے دور دور تک پہنچے، ملک بملک انھوں نے فساد مچایا اور ان ملکوں میں بھی اپنی سرداری اور حکمرانی کا سکہ چلایا۔ (رازی ،آلوسی) لیکن اس کے باوجود کیا وہ ہماری پکڑ سے بچ سکے؟ ﴿فَنَقَّبُوْا﴾ایک قراء ت میں﴿فَنَقِّبُوْا﴾یعنی بصیغۂ امرہے اور مفہوم یوں ہے: کہ اے اہلِ مکہ! ان لوگوں کی بستیوں کی طرف چلو، اور اپنی آنکھوں سے دیکھ لو کہ کیا وہ ہمارے عذاب سے بچ سکے۔ان قوموں کی سرگزشت باعثِ عبرت ہے،بشرطیکہ عبرت حاصل کرنے والا دل ہو اور متوجہ ہو کر سننے والے کان ہوں۔ ’’قلب‘‘ یعنی دل، ظاہر ہے کہ یہاں بیدار اور صحیح دل مراد ہے، ورنہ ہر انسان کے پہلو میں دل تو دھڑکتا ہے،مگر کچھ دل مریض ہوتے ہیں، کچھ پتھر سے بھی زیادہ سخت ہوتے ہیں اور کوئی بات ان پر اثر پذیر نہیں ہوتی ، جیسے فرمایا : ﴿لَہُمْ قُلُوْبٌ لاَّ یَفْقَہُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ أَعْیُنٌ لاَّ یُبْصِرُوْنَ بِہَا وَلَہُمْ آذَانٌ لاَّ یَسْمَعُوْنَ بِہَا أُوْلٰٓئِکَ کَالْلأَ نْعَامِ بَلْ ہُمْ أَضَلُّ ﴾ (الاعراف:۱۷۹) ’’ان کے دل ہیں لیکن ان سے سوچتے نہیں ،ان کی آنکھیں ہیں لیکن ان سے دیکھتے نہیں، ان کے کان ہیں مگر ان سے سنتے نہیں، وہ جانوروں کی طرح ہیں ،بلکہ ان سے بھی زیادہ گئے گزرے ہیں۔‘‘ یہی بات ایک اور جگہ ارشاد فرمائی ہے: ﴿أَفَلَمْ یَسِیْرُوْا فِیْ الْأَرْضِ فَتَکُوْنَ لَہُمْ قُلُوْبٌ یَّعْقِلُوْنَ بِہَا أَوْ آذَانٌ یَّسْمَعُوْنَ بِہَا فَإِنَّہَا لَا تَعْمَی الْأَبْصَارُ وَلَکِنْ تَعْمَی الْقُلُوْبُ الَّتِیْ فِیْ الصُّدُوْرِ﴾( الحج: ۴۶) ’’کیا یہ لوگ زمین میں چلتے پھرتے نہیں(کاش کہ) ان کے دل سمجھنے والے ہوتے یا ان کے کان سننے والے ہوتے(تو ان سے عبرت حاصل کر لیتے ) حقیقت یہ ہے کہ ان کی آنکھیں اندھی نہیں،بلکہ وہ دلوں کے اندھے
Flag Counter