ہیں جو سینے میں ہیں۔‘‘ قرآنِ مجیدنصیحت وعبرت ہے، مگر ان کے لیے جن میں یہ اوصاف پائے جائیں۔ ۱۔ بیدار دِل، اگر دل زندہ نہیں تونصیحت اثر نہیں کرے گی یہ پہلی اور بنیادی شرط ہے ۔ ایک اورمقام پر ارشاد ہے: ﴿إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ وَّقُرْآنٌ مُّبِیْنٌo لِیُنْذِرَ مَنْ کَانَ حَیّاً ﴾ (یٰس: ۶۹، ۷۰) ’’یہ تو ایک نصیحت ہے اور قرآن مبین ہے تا کہ ہر اس شخص کو خبردار کر دے جو زندہ ہے۔ ‘‘ مراد یہاں بھی زندہ دل ہے جو غور وفکر کی صلاحیت رکھتا ہے۔ (۲) مائل کان :اگر دل کی یہ کیفیت نہیں اور اس میں اتنی صلاحیت ہی نہیں تو کم از کم یہ تو ہو کہ اگر اسے کوئی بات سنائے تو توجہ سے اسے سنے اور اس میں یہ طلب صادق ہو کہ کوئی بات سننے سے رہ نہ جائے، پورے انہماک سے اسے سننے والا ہو، اگر سننے کا داعیہ ہی نہ ہو تو بات کتنی ہی معقول کیوں نہ ہو مؤثر کیوں کر ہو گی؟ (۳) اور اس کے ساتھ یہ بھی کہ اس کا قلب وذہن بھی متکلم کے ساتھ ہو اور ’’شھید‘‘ حاضر ہو،یعنی وہ حاضردل ودماغ لیے بیٹھا ہو، غافل اور غائب قلب وذہن ہوگا تب بھی عبرت حاصل نہیں ہو گی، اگر سننے کے لیے بیٹھا ہو، مگر دل ودماغ حاضر نہیں تو بسا اوقات پاس سے گزرنے والے کا احساس نہیں ہوتا، چہ جائیکہ عبرت وموعظت کی بات کا احساس ہو ۔قریش کو بھی اسی لیے قرآنِ مجید سے عبرت حاصل نہیں ہوئی کہ ان کا دل ہی بیمار، بلکہ مردہ تھا ۔قرآنِ مجید کو توجہ سے اورحاضر دماغی سے سننا تو کجا ان کے سرغنے تو سرے سے قرآنِ مجید سننے سے اجتناب کرتے اور دوسروں کو بھی سننے سے روکتے تھے، چنانچہ فرمایا: ﴿وَقَالَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَا تَسْمَعُوْا لِہٰذَا الْقُرْآنِِ وَالْغَوْا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَغْلِبُوْنَ ﴾(حٰمٓ السجدۃ:۲۶) |