فرمایا: تو میرا غضب ہے میں تیرے ذریعے سے اپنے جن بندوں کو چاہوں گا عذاب دوں گا،میں تم دونوں کو بھروں گا، دوزخ تو کسی طرح نہ بھرے گی تاآنکہ اللہ تعالیٰ اس پراپناپاؤں رکھے گا، تب وہ کہے گی: بس بس، اور پھروہ سمٹ جائے گی اور اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے پر ظلم نہیں کرے گا۔ اور رہی جنت تو اس کو بھرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اور مخلوق پیدا کرے گا۔ یہی روایت صحیح مسلم(رقم :۷۱۷۶) اور مسند امام احمد میں حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے بھی منقول ہے۔ اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے بھی اس کا تذکرہ اپنی تفسیر میں کیاہے۔ یہاں ایک بات غور طلب ہے۔ پہلی تو یہ کہ ان روایات میں ’’حَتَّی یَضَعَ قَدَمَہٗ‘‘ ’’فَیَضَعُ الرَّبُّ تَبَارَکَ وَتَعَالٰی قَدَمَہٗ ‘‘۔’’حَتَّی یََضَعَ رِجْلَہٗ‘‘۔حَتَّی یَضَعَ فِیْھَا رَبُّ الْعٰالَمِیْنَ قَدَمَہٗ‘‘کے الفاظ ہیں کہ اس میں یا اس پر اللہ تعالیٰ اپنا قدم رکھیں گے۔ اس کا کیا مفہوم ہے؟ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے ذکر کیا ہے کہ سلف،یعنی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمہم اللہ کا اس مسئلہ میں اور اللہ تعالیٰ کی دوسری صفات مثلاًوجہ، ید، سمع، بصر، کلام، نزول، علو،استویٰ وغیرہ میں موقف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات اسی طرح بلاتأویل وتفسیر تسلیم کرنی چاہییں،مگر بہت سے علماء نے جیسے دوسری صفات کے بارے میں تأویل کی ،وہ یہاں بھی اس حدیث کی تأویل کرتے ہیں اور اس تأویل میں ان کی آرا نہایت مختلف ہیں۔ حتی کہ بعض نے تو سرے سے حَتَّی یَضَعَ الرِّجْلَ کے الفاظ کا انکار ہی کر دیا، تاکہ نہ رہے سر نہ ہو دردِسر۔ مگر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ یہ قول مردود ہے کیونکہ صحیحین میں یہ الفاظ ثابت ہیں۔(فتح الباری :ص۵۹۶ج۸) صحیح بات یہی ہے کہ دیگر صفاتِ الہیہ کی طرح یہاں بھی ائمۂ سلف کی طرح تأویل کی بجائے صفت ’’قدم‘‘ یا ’’رجل‘‘ کو علی حالہ تسلیم کیا جائے۔اور اللہ کے جو شایانِ شان ہے اس کے مطابق اسے بھی مانا جائے۔ امام ماتریدی رحمہ اللہ نے تفسیر میں اس حدیث کے ظاہری مفہوم پر ایک اعتراض کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو جہنم کو سر کشوں سے بھر نے کا فرمایا ہے ،جبکہ اس حدیث میں ’’قدم‘‘ یا’’رجل‘‘ کے ذریعے سے بھرنے کا تأثر نکلتا ہے۔ لیکن یہ اعتراض درست نہیں،کیونکہ حدیث میں ہے کہ قدم رکھنے سے جہنم سمٹ جائے گی اور پکار اٹھے گی :بس،بس! گویا قدم |