Maktaba Wahhabi

144 - 190
سے اس کی وسعت ہی کم پڑ جائے اور وہ سکڑ جائے گی۔ اور یوں سکڑ کر وہ بھر جائے گی۔ اس لیے یہ اعتراض درست نہیں۔ یہاں یہ بھی پیشِ نگاہ رہے کہ بخاری شریف (رقم:۴۸۵۰) میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں جیسا کہ اوپر گزراہے کہ جنت کو بھرنے کے لیے اللہ تعالیٰ اور مخلوق پیدا کرے گا۔ لیکن بخاری شریف ہی میں ہے کہ جہنم نہیں بھرے گی تاآنکہ اللہ تعالیٰ اور مخلوق پیدا کرے گا اور اسے جہنم میں ڈالے گا اور وہ کہے گی کیا اور بھی ہیں؟ پھر اللہ تعالیٰ اس میں اپنا قدم رکھے گا۔( بخاری :کتاب التوحید، رقم ۷۴۴۹)حالانکہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے عدل و انصاف کے مطابق نہیں، اللہ تعالیٰ اپنے کسی بندے پر ظلم نہیں کرتے تو اس وقت مخلوق کو پیدا کر کے بلا جرم جہنم میں ڈال دینا کیونکر ممکن ہے؟ اللہ تعالیٰ اگر بلا جرم سزا دیں تو وہ اس پر قادر ہیں، ایسا کرنے سے بھی کوئی اس سے سوال نہیں کر سکتا۔ لیکن یہ صرف جواز اور امکان کے درجہ میں ہے اہلِ سنت اس کے وقوع کے قائل نہیں جیسا کہ پہلے ہم ذکر کر آئے ہیں۔ اسی لیے بعض حضرات نے اس کی مختلف تأویلات کی ہیں۔ مگر حافظ ابن قیم رحمہ اللہ اور دیگر حضرات نے فرمایا ہے کہ اس روایت میں قلب ہو گیا ہے اور اصول حدیث کی اصطلاح میں یہ روایت مقلوب ہے۔ اصل روایت میں تو جنت کے لیے نئی مخلوق پیدا کر کے اسے جنت میں داخل کرنے کا ذکر ہے،مگر راوی کی غلطی سے اس کا ذکر جہنم کے بارے میں ہو گیا۔ تفصیل کے لیے فتح الباری (ص ۴۳۷ ج۱۳) ملاحظہ فرمائیں۔ یہاں یہ بات بھی ملحوظ رہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ روایت’’بَابُ اِنَّ رَحْمَۃَ اللّٰہٖ قَرِیْبٌ مِّنَ المُحْسِنِیْنَ‘‘ میں ذکر کی ہے۔ اور حدیث میں فقَالَ اللّٰہُ تَعَالیٰ لِلْجَنَّۃِ، أَنْتِ رَحْمَتِی ’’کہ اللہ تعالیٰ جنت سے فرمائے گا تو میری رحمت ہے‘‘سے اللہ کی رحمت پر استدلال ہے۔اور حدیث کا قابلِ اعتراض جملہ امام صاحب کی غرض ومقصود کے منافی ہے۔ انھوں نے یہ جیسے شیوخ سے سنا بیان کر دیا۔ اس سے ان کا کوئی استدلال ہوتا تو تفسیر میں ’’ بَابُ وَتَقُوْلُ ھَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ‘‘ میں لاتے۔ اہلِ علم جانتے ہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ کا اسلوب ہے کہ اگر روایت میں کوئی جملہ
Flag Counter