Maktaba Wahhabi

145 - 190
محلِ نظر ہو تو وہ اسے اپنے مقصودباب میں نہیں لاتے، اور نہ ہی اس سے ان کا استدلال ہوتا ہے، اور اس قسم کے جملوں سے امام بخاری رحمہ اللہ پر اعتراض بجائے خود ان کے اسلوب کو نہ سمجھنے کا نتیجہ ہے۔ یہاں حدیث ہی کی موافقت سے یہ بات بھی یاد رہے کہ جنت کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہ میری رحمت ہے ،گویا اللہ کی رحمت کا مظہر جنت اور اس کے انعامات ہیں۔ بعض حضرات جو فرماتے ہیں: کہ اللہ سے جنت طلب نہیں کرنی چاہیے یہ طلب تو پھر مخلوق کی طلب ہے، خالق سے خود خالق کی محبت طلب کرنی چاہیے، مگر ان کا یہ خیال درست نہیں جنت کی طلب اس لیے کہ وہ محلِ دیدارِ محبوب ہے اور اللہ کی رحمت کا مظہر ہے، اور دوزخ اس کی ضد ہے اور اللہ کے غضب کا مظہر ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے جنت الفردوس کا سوال کرتے اور دوزخ سے پناہ طلب کرتے تھے اور یہی تعلیم آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو دی اور اللہ تعالیٰ سے جنت طلب کرنے کا حکم فرمایا ہے۔ بعض مفسرین نے اس آیت مبارکہ میں﴿ہَلْ مِنْ مَّزِیْدٍ ﴾کہ کیا اور کچھ ہے، کو استفہامِ انکاری کے مفہوم میں لیا ہے کہ کیا مجھ میں کوئی گنجائش باقی رہی ہے کہ مجھ میں اور زیادتی کی جائے، یہ قول حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور امام مجاہد رحمہ اللہ وغیرہ سے منقول ہے۔ مگر امام بن جریر رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ ان حضرات کا یہ موقف تب درست ہے جب اللہ سبحانہ وتعالیٰ اپنا قدم اس میں رکھ لیں گے اور وہ بس بس پکارے گی۔ ظاہر ہے کہ اگر یہ تأویل اللہ تعالیٰ کے قدم رکھنے سے پہلے قرار دی جائے تو یہ جہنم کی وسعت ،اس کے جوش وغضب ،جس کا ذکر قرآن مجیداور احادیث مبارکہ میں آیا ہے، کے منافی معلوم ہوتی ہے۔ اس آیت میں جہنم کی وسعت کا بیان ہے یا اس کے بھر جانے کا بیان ہے، دونوں صورتیں جہنمیوں کی غمناکی اور مزید فکر مندی کا باعث ہیں، پہلی صورت میں جہنمی یہ سن کر: کہ اللہ تعالیٰ نے جہنم کو بھرنے کا وعدہ کیا تھا اور آج اس سے پوچھا جارہا ہے کہ تو بھری ہے یا نہیں ،اور وہ جوشِ غضب سے کہہ رہی ہے کہ ابھی اور ہیں تو لاؤ، ابھی بڑی گنجائش ہے۔ کفار ومشرکین اور پریشان ہو جائیں گے کہ ابھی یہ بھری نہیں تو اس سے نکلنے کی امید کیسے ہو
Flag Counter