سکتی ہے؟ اور اب جب اسے بھرنے کے لیے مزید مجرموں کو اس میں ٹھونسا جائے گا تو یہ مزید تنگی اور پریشانی میں اضافے کا باعث بنے گا۔ دوسری صورت میں جب جہنمی سنیں گے: کہ دوزخ کہہ رہی ہے:کہ میں بھر چکی ، مجھ میں کوئی گنجائش نہیں، اور کیا ابھی باقی ہیں، تو تب بھی یہ ان کی مزید پریشانی کا باعث ہے کہ یہاں تو پہلے ہی ایک دوسرے پر لعن وطعن ،چیخ و پکار اور مختلف اذیتوں میں پھنسے ہوئے ہیں اگر اور لا کر یہاں پھینک دیئے گئے تو تنگی اور تکلیف اور بڑھ جائے گی۔ خلاصۂ کلام یہ کہ جہنم میں انواع واقسام کے عذاب اور تکالیف کو برداشت کرتے کرتے عذاب میں تخفیف کی اپیلوں اور موت کی تمناؤں اور التجاؤں میں اپنے آپ کو نامراد پائیں گے تو دوزخ کا یہ جواب مزید ان کی اذیت میں اضافہ کا باعث بنے گا۔ أعاذنا اللہ منہ۔ یہاں یہ جہنم اور جنت کو مخاطب کرنے کا جوذ کر آیا یہ محض تصوراتی نہیں کہ بس جہنم سے ڈرانا مقصود ہے اور نہ ہی مجازی ہے کہ جہنم وجنت تو کوئی ذی روح اور زندہ بولنے والا وجود نہیں کہ ان سے کلام ہو سکے۔ بلکہ یہ کلام اور مخاطبت حقیقی ہے۔اللہ تبارک وتعالیٰ جس سے چاہے کلام کرے اور اسے بولنے سننے کی قوت وطاقت عطا فرمادے۔اگر اللہ تعالیٰ زبان کے علاوہ انسانی اعضاء کو بولنے اور ان سے شہادت لینے پر قادر ہے، پہاڑوں سے، زمین وآسمان سے بلکہ اپنی ہر مخلوق سے کلام کرنے اور ان سے جواب طلب کرنے پر قادر ہے تو جنت ودوزخ سے یہ تخاطب بھی بالکل ممکن اور حقیقت پر مبنی ہے۔ قرآنِ مجیدکی یہ آیت ِکریمہ فصاحت وبلاغت کا شاہکار ہے۔ علامہ طنطاوی رحمہ اللہ نے اس حوالے سے ایک بڑا دلچسپ واقعہ ذکر کیا ہے، فرماتے ہیں کہ ۱۳جون ۱۹۳۲ء کو میری ملاقات معروف مصری ادیب کامل گیلانی سے ہوئی، انھوں نے ایک عجیب واقعہ بیان فرمایا کہ میرے امریکی مستشرق پروفیسر فنکل کے ساتھ گہرے علمی وادبی تعلقات تھے، ایک روز میں ان کے ساتھ تھا، تو انھوں نے میرے کان میں چپکے سے کہا :’’کیا دوسرے لوگوں کی طرح تم بھی قرآن کو معجزہ تسلیم کرتے ہو؟ ‘‘یہ کہہ کر وہ معنی خیز ہنسی ہنسنے لگا۔ جو اس بات کا اشارہ تھا کہ قرآنِ مجید کو معجزہ قرار دینے کی کوئی حقیقت نہیں، مسلمان محض تقلیداًاسے تسلیم کر |