سے زیادہ اللہ سے ڈرتا ہوں اور تم سے زیادہ پرہیز گار ہوں۔ ‘‘آپ نے فرمایا: لَوْتَعلَمُوْنَ مَا أَعْلَمُ لَضَحِکْتُمْ قَلِیْلاً وَلَبَکَیْتُمْ کَثِیْراً(بخاری: ۶۴۸۵ وغیرہ) جو کچھ میں جانتا ہوں اگر تم جان لو تو تم کم ہنسو اور زیادہ رو و۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿لَوْ أَنْزَلْنَا ہٰذَا الْقُرْآنَ عَلٰی جَبَلٍ لَّرَأَیْتَہٗ خَاشِعاً مُّتَصَدِّعاً مِّنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ﴾ (الحشر۲۱) ’’اگر ہم یہ قرآن کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو دیکھتے کہ وہ اللہ کے ڈرسے دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑتا ہے۔‘‘ پہاڑ کا یہ خوف اس کے ضعف اور کمزوری کی وجہ سے نہیں، بلکہ اس کا یہ خوف اللہ کی عظمت وکبریائی کے احساس سے ہے۔ اسی طرح فرشتوں کے بارے میں فرمایا: ﴿وَہُمْ مِّنْ خَشْیَتِہٖ مُشْفِقُوْنَ﴾ (الانبیاء:۲۸) ’’اور وہ اس کے ڈرسے خوف کھاتے ہیں۔‘‘ فرشتوں کا یہ ڈر بھی اللہ تعالیٰ کی عظمت وجلال کی بنا پر ہے ان کی کمزوری اور ضعف کے احساس سے نہیں۔ ’’ڈر‘‘ کے لیے ایک لفظ’’خوف‘‘ ہے۔اس کا استعمال ایسے ڈر کے لیے ہوتا ہے جو کسی طاقت ور اور صاحبِ اختیار کے مقابلے میں اپنی ناتوانی اور کمزوری کے احساس میں پیدا ہوتا ہے، اور ’’الخوف‘‘ کے اصل معنی ہیں قرائن وشواہد سے کسی آنے والے خطرہ کا اندیشہ کرنا، خوف کی ضد امن ہے۔ اور یہ دنیوی اور اخروی دونوں کے لیے ہے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے مدارج السالکین جلد اول کے آخر میں خشیت ، خوف ،وجل، رھبہ کے فرق پر بڑی نفیس بحث کی ہے جو ہمارا موضوع نہیں۔ نیز اس کے لیے علامہ مجد الدین رحمہ اللہ فیروزآبادی کی بصائر ذوی التمییز بھی ملاحظہ فرمائیں۔ ہمارا مقصود یہ ہے کہ یہاں’’خوف‘‘ کی بجائے’’خشی‘‘ کا لفظ آیا ہے جس میں اس بات کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اللہ کاڈر مومن کے دل میں اللہ کی سرزنش ، اس کے عذاب اور سزا کے خوف سے ہی نہیں،بلکہ اللہ کی عظمت وجلال کی ہیبت کی بنا پر طاری رہتا ہے۔ خشیت، خوف سے خاص اور خواص کا عمل |