Maktaba Wahhabi

156 - 190
ہے۔ خوف مقصود بالذات نہیں، بلکہ وسیلۂ عمل ہے اور جب مومن جنت میں چلا جائے گا تو ﴿وَلاَ خَوْفٌ عَلَیْہِمْ وَلاَ ہُمْ یَحْزَنُوْنَ﴾ (البقرۃ: ۱۱۲)ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ انھیں کوئی ملال ہو گا ۔مگر اللہ کی عظمت کی ہیبت اور اس کے جلال کااحساس تو ہمیشہ رہے گا اوررہنا بھی چاہیے ۔بھلائیوں اور نیکیوں میں سبقت لے جانے والوں کا ذکر کرتے ہوئے اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ﴿إِنَّ الَّذِیْنَ ہُمْ مِّنْ خَشْیَۃِ رَبِّہِمْ مُّشْفِقُوْنَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِآیَاتِ رَبِّہِمْ یُؤْمِنُوْنَo وَالَّذِیْنَ ہُمْ بِرَبِّہِمْ لَا یُشْرِکُوْنَo وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَا آتَوْا وَّقُلُوبُہُمْ وَجِلَۃٌ أَنَّہُمْ إِلیٰ رَبِّہِمْ رَاجِعُوْنَo أُوْلٰئِکَ یُسَارِعُوْنَ فِیْ الْخَیْرَاتِ وَہُمْ لَہَا سَابِقُوْنَ ﴾(المؤمنون:۵۷۔۶۱) ’’وہ جو اپنے اللہ کی خشیت سے ڈرتے ہیں ،جو اپنے رب کی آیات پر ایمان لاتے ہیں، جو اپنے رب کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرتے اور ان کا حال یہ ہے کہ وہ جو کچھ بھی دیتے ہیں ان کے دل اس خیال سے کانپتے رہتے ہیں کہ ہمیں اپنے رب کی طرف پلٹنا ہے وہی نیکیوں میں جلدی کرتے ہیں اور ان کے حصول میں سبقت کر تے ہیں۔‘‘ جامع ترمذی میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا اے اللہ کے رسول!اللہ کے فرمان کہ ’’وہ جو کچھ بھی دیتے ہیں اور ان کے دل ڈرتے ہیں‘‘ سے وہ لوگ مراد ہیں جو چوری ،زنا کرتے اور شراب پیتے ہیں اور وہ اللہ سے بھی ڈرتے ہیں؟ آپ نے فرمایا: لَا یَابِنْتَ الصِّدِّیْقِ، وَلکِنَّہٗ الَّذِیْ یُصَلِّیْ وَیَصُوْمُ وَیَتَصَدَّقُ وَھُوَ یَخَافُ اللّٰہَ عَزَّوَجَلَّ۔ (مسند احمد :ص ۱۵۹،۲۰۵ج۶،ترمذی رقم:۳۱۷۵) ’’نہیں اے ابو بکر صدیق کی بیٹی!بلکہ وہ مراد ہے جو نماز پڑھتا ہے ، روزہ رکھتا ہے ،صدقہ کرتا ہے اوراللہ دسے ڈرتا ہے۔‘‘
Flag Counter