Maktaba Wahhabi

98 - 190
ہیں،انھی کے یہ نوشتے جب قیامت کے روز مجرم دیکھیں گے تو افسوس سے اعتراف کریں گے کہ: ﴿یٰوَیْلَتَنَا مَالِ ہٰذَا الْکِتَابِ لَا یُغَادِرُ صَغِیْرَۃً وَّلَا کَبِیْرَۃً إِلَّا أَحْصَاہَا وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِراً وَّلَا یَظْلِمُ رَبُّکَ أَحَداً﴾ (الکھف:۴۹) ’’ہائے افسوس! یہ کیسی کتاب ہے، جس میں ہماری کوئی چھوٹی اور بڑی حرکت ایسی نہیں جو درج نہ ہو، جو کچھ انھوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہیں کرتا۔‘‘ یہی نامۂ اعمال قیامت کے دن کھلی کتاب کی طرح انسان کے سامنے ہو گا اور اسے کہا جائے گا: ﴿اقْرَأْ کِتَابَک ط کَفٰی بِنَفْسِکَ الْیَوْمَ عَلَیْکَ حَسِیْباً﴾ (الاسراء:۱۴) ’’پڑھ اپنانامۂ اعمال، آج تو اپنا حساب لگانے کے لیے خود ہی کافی ہے۔‘‘ اس بارے میں اختلاف ہے کہ کیا فرشتے ہر عمل اور ہر بول لکھتے ہیں یا وہی لکھتے ہیں جس میں خیر وشر کا اور ثواب وعقاب کا پہلو ہوتا ہے۔قرآنِ مجیدکے ظاہرِ سیاق سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ ہر قول وعمل لکھا جاتا ہے۔(ابنِ کثیر) یہی قول امام مجاہد، طاوس، عطاء بن ابی رباح رحمہم اللہ کا ہے ۔امام ربیع بن خثیم رحمہ اللہ اس بارے اس قدر محتاط تھے کہ ایک بار ان کی بیٹی نے ان سے کھیلنے کی اجازت طلب کی، تو انھوں نے اجازت نہ دی، شاگردوں نے عرض کیا کہ آپ اجازت دے دیں، تو انھوں نے فرمایا: میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میرے نامۂ اعمال میں یہ لکھا جائے کہ اِذْھَبِیْ فَالْعَبِیْ،جاؤ کھیلو۔بلکہ میں تو یہی کہوں گا کہ جاؤ اچھی بات کہو اور اچھا عمل کرو۔ (ابن ابی شیبہ ،الثقات للعجلی :ص۱۵۴)امام احمد رحمہ اللہ بیماری کی حالت میں کراہتے اور ہائے ہائے کرتے تھے،مگر جب انھیں پتہ چلا کہ امام طاؤس رحمہ اللہ نے فرمایا ہے کہ فرشتے مریض کے کراہنے کی آواز بھی لکھتے ہیں، تو انھوں نے پھر زندگی بھر ہائے
Flag Counter