Maktaba Wahhabi

100 - 190
عمل کرے تو اسے دس سے سات سو تک لکھو۔‘‘ یہی روایت صحیح بخاری(۷۵۰۱) ومسلم (رقم ۳۳۸) میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے۔ فرشتے چونکہ نوری مخلوق ہیں اس لیے وہ حسی اور وجودی امور کا ادراک ہی نہیں رکھتے، بلکہ روحانی اور غیر حسی امور سے بھی مطلع ہو جاتے ہیں۔ ابو معشر سے کسی نے پوچھا کہ انسان دل میں اللہ کا ذکر کرتا ہے تو فرشتے اسے کیسے لکھ لیتے ہیں؟ انھوں نے فرمایا: وہ اس کی خوشبو پالیتے ہیں۔(ابن المنذر ، الدرالمنثور:ص۱۰۳ ج۶) اور یہ بات تو اپنی جگہ اہل اللہ کے ہاں متحقق ہے کہ نیک اعمال کی خوشبو ہوتی ہے اور برے اعمال کی بو ہوتی ہے۔ اور وہ بسا اوقات اس کا احساس بھی پاتے ہیں۔میرے شیخ ،بلکہ شیخ العرب والعجم حضرت محمد گوندلوی رحمہ اللہ نے جب اسی حوالے سے ایک بار بخاری شریف کے درس میں گفتگو کی تو راقم نے عرض کیا کہ کیا یہ بات نظر یاتی ہے یا حسی وعملی بھی ؟توانھوں نے ارشاد فرمایا: حسی طور پر بھی اس کا احساس ہوتا ہے۔ میں نے عرض کیا اس کی کوئی مثال؟ تو ارشاد فرمایا: زانی کے جسم سے اس طرح کی بو آتی ہے جیسے حقہ پینے والے کے منہ سے آتی ہے۔ اخی ومحبی مولانا برق التوحیدی حفظہ اللہ نے ذکر کیا کہ اسی نوعیت کی بات دورانِ درس میں حضرت حافظ صاحب نے فرمائی تو میں نے عرض کیا کہ کوئی شخص ہے جس کو یہ احساس ہوتا ہے: تو انھوں نے فرمایا: ہاں! سید ابو بکر غزنوی رحمہ اللہ کو اس کا احساس ہوتا تھا۔ جب اہل اللہ یہ چیز محسوس کرتے ہیں تو فرشتے کا وجود تو انتہائی لطیف ہے۔ وہ اس کا احساس بالأولیٰ پاتے ہیں اور اسی بنا پر وہ نیکی کے ارادے کو لکھتے ہیں،اور برائی کے ارادے کواللہ کے لطف وکرم کی وجہ سے نہیں لکھتے۔ البتہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ إِنَّ اللّٰہَ تَعَالیٰ تَجَاوَزَ لِأُمَّتِیْ عَمَّا حَدَّثَتْ بِہِ أَنْفُسُھَا مَالَمْ تَعْمَلْ أَوْتَتَکَلَّمْ بِہٖ۔(بخاری:۵۲۶۹،مسلم:۳۳۲) ’’اللہ تعالیٰ میری امت کو معاف کر دیتے ہیں جو ان کے دل میں خیالات آتے ہیں، جب تک ان کو زبان سے نہ کہا ہو، یا عمل نہ کیا ہو۔‘‘ جب اللہ تعالیٰ کی طرف سے وساوس وخطرات کی معافی ہے تو ان کے لکھنے کا کیا
Flag Counter